|
Zarpash Khan 's post in ❣Bold Romantic... needs approval: "Don't copy paste without my permission Beqarar Writer Anam Kazmi Novels Episode 49 میرال گھر آکر کافی بے چین تھی۔ کیا یہ واقعی میں سچ ہے کہ وہ آج بھی شامیر دُرانی کی بیوی ہے۔ میرال اپنے کمرے میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت میں ٹہلنے لگی اس حقیقت کو اس کا دل ماننے سے انکاری تھا نہ ہی وہ اپنے دل میں خوشی کی کوئی رمق محسوس کر پا رہی تھی۔ بے شک گزرے ان دو سالوں میں وہ شامیر دُرانی کو بھول نہیں پائی تھی. مگر آج اس کے واپس لوٹنے پر اس کا دل کوئی خوشی محسوس نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کا دل جیسے ٹھہر گیا تھا، رک گیا تھا، آگے سے بڑھنے سے انکاری تھا۔ شامیر دُرانی آج بھی ویسا ہی ہے۔ اس کے لیے جنونی، اس کے لیے پوزیسو۔ اس کا دہکتا لمس محسوس کر کے میرال پر اچھی طرح واضح ہو گیا تھا۔ اس کی جنونیت پہلے سے زیادہ دیوانگی اختیار کر گئی ہے۔ اس کے لمس میں، اس کی باتوں میں جدائی کی تڑپ تھی، دیوانگی تھی، جنونیت تھی، محبت تھی، عشق تھا مگر شرمندگی نہ تھی۔ اس نے اس کے ساتھ جو کیا شامیر دُرانی نے ایک دفعہ بھی اس سے معافی نہیں مانگی تھی۔ وہ صرف ایک بات کا ذکر کرتا رہا کہ اس نے وہ پیپرز سائن نہیں کیے۔ مگر ایک دفعہ بھی اپنی غلطیوں کی معافی نہیں مانگی۔ وہ جتنا میرے لیے جنونی ہوتا جائے گا. اتنا ہی وہ مجھے اپنی مٹھی میں رکھنے کی کوشش کرے گا. جہاں سانس بھی مجھے اس کی مرضی سے لینا پڑے گا۔ کیا زندگی گزارنے کے لیے ایک مرد کا ساتھ ہونا ضروری ہے؟ کیا عورت ایک مرد کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتی؟ مجھے اپنی زندگی میں کسی مرد کا ساتھ نہیں چاہیے اس شامیر دُرانی کا تو بالکل بھی نہیں۔ میرال نے اپنا دکھتا سر دباتے ہوئے کراؤن کے ساتھ ٹیک لگائی تھی۔ میرال نے خوبصورت سا نفیس سی کڑھائی والا بلیک کلر کا فراک زیب تن کر رکھا تھا۔ فل آستین ہونے کے باوجود میرال کے دودھیا بازو نمایاں ہو رہے تھے۔ میرال نے اپنے خوبصورت بالوں کو سائیڈ سے ٹوسٹ کر کے باریک پِنز لگا کر بال کھلے چھوڑ رکھے تھے۔ ہونٹوں پر پنک لپ گلوز لگائے وہ بالکل تیار تھی آفس جانے کے لیے۔ میرال گلے میں دوپٹہ ڈالے اپنا بیگ اُٹھائے باہر گیٹ پر آئی ہی تھی کہ شامیر دُرانی کی گاڑی اس کے سامنے آ کر رُکی تھی۔ میرال کے دل کی دھڑکنیں یک دم تیز ہوئی تھیں۔ گاڑی میں سے شامیر دُرانی کے ساتھ فرخندہ اور شاہدہ بھی اتریں تھیں۔ میرال نے انھیں دیکھ کر غصے سے اپنی نگاہیں پھیریں تھیں۔ شامیر دُرانی گاڑی سے اُتر کر میرال کے قریب آ کر گہری اور استحقاق بھری نظروں سے میرال کو اوپر سے نیچے تک گھور کر دیکھا۔ اسے یوں تیار گلے میں دوپٹہ ڈالے گیٹ پر کھڑا دیکھ کر شامیر دُرانی کا غصے سے چہرہ سرخ ہوا تھا۔ فرخندہ اور شاہدہ میرال سے نظریں ملائے بغیر اندر چلی گئیں تھیں۔ میرال شامیر کو اگنور کیے آگے بڑھنے لگی تھی کہ شامیر نے اپنی سخت گرفت میں اس کی کلائی جکڑی تھی۔ کدھر؟ شامیر دُرانی نے اَبرو اچکاتے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔کہیں بھی جاؤں میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں ہوں۔ میرال نے اپنی کلائی جھٹکے سے چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ شامیر اس کی کلائی جکڑے گیٹ کے اندر داخل ہو چکا تھا۔ شامیر چھوریں مجھے۔ میرال غصے سے چلائی۔ تم یقینًا آفس جانے کے لیے تیار ہو۔ جب میں نے منع کیا تھا کہ تم یہ جاب نہیں کرو گی تو مطلب نہیں کرو گی۔ تمھیں ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی میری۔ شامیر نے سرد نگاہوں سے میرال کو دیکھا تھا۔ شامیر میں یہ جاب نہیں چھوڑوں گی۔ آپ کچھ بھی کر لیں میں یہ جاب کروں گی۔ میرال شامیر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد انداز میں بولی تھی۔ اچھا تو ایسا ہے۔ شامیر تمسخرانہ مسکرایا تھا۔ چلو پھر جا کر دکھاؤ۔ شامیر نے مسکراتے ہوئے اسے باہر جانے کا اشارہ کیا تھا۔ آپ مجھے چھوڑیں گے تو میں جاؤں گی ناں۔ میرال نے اس کی وحشی گرفت کی طرف اشارہ کیا تھا۔ جس کی گرفت میں ابھی بھی اس کی کلائی تھی۔ شامیر کے لب گہرے مسکرائے تھے۔ وہ تو میں تمھیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ جب جب مجھے چھوڑنے کی بات کرو گی تو تمھیں شامیر دُرانی کی جنونیت سے سامنا کرنا پڑے گا۔ شامیر نے اسے جھٹکے سے کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا تھا اس کی کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتا سختی سے خود میں پھینچا تھا۔ کیوں ستا رہی ہو مجھے دو سال کی جدائی کم تھی جو اب یوں تڑپانے لگی ہو مجھے۔۔ شامیر میرال کو سینے سے لگائے سرگوشی نما آواز میں مخمور لہجے میں بولا۔ میرال نے شامیر کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی مگر ہمیشہ کی طرح اس کا نازک وجود ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ شامیر میرال سے الگ ہوتا اس کے ماتھے پر اپنے دہکتے ہوئے لب رکھے تھے۔ تمھیں جاب کرنی ہے تو ٹھیک ہے میری جان،، اپنا آفس آکر سنبھالو۔ جس کی تم مالکن ہو۔ شامیر آنکھوں میں ڈھیروں محبت سموئے بولا۔ کون سا آفس میرا ہے،، جس کی میں مالکن ہو گئی؟ میرال نے طنزیہ مسکراتے ہوئے کہا۔۔ تم صرف اس آفس کی ہی نہیں میری جان،،،میری بھی مالکن ہو اور میں اپنی جان کا غلام۔ شامیر میرال کا طنز اگنور کرتا اسے بانہوں میں بھرتا ہوا بولا۔ بن ہی نہ جائیں کہیں آپ غلام میرے،،،میرال منہ بگاڑتے ہوئے طنزیہ بولی تو شامیر دُرانی نے قہقہہ لگایا تھا۔ میری جان مجھے نہیں پتہ تھا کہ ہر بیوی کی طرح میری میرال کی بھی خواہش ہے کہ اس کا شوہر اس کا غلام بن کر رہے۔۔شامیر اپنا نچلا لب دانتوں میں دباۓ شرارت سے میرال کا غصے سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر مہفوظ ہوا۔ ۔ تو جان شامیر وعدہ ہے یہ میرا ساری زندگی آپ کی غلامی کروں گا۔ شامیر درانی آگے پیچھے پھرے گا تمھارے،،،ہر فیصلہ ہر حکم تمھارا چلے گا۔ جیسے کہو گی،،ویسے ہی کروں گا۔۔۔گھر چلو میری لیڈی باس۔۔۔۔ بس ایک دفعہ گھر چلو میرے ساتھ۔ میرال جب سے تم وہ گھر چھوڑ کر آئی ہو وہ اداس، ویران ہے وہ ایک مکان بن گیا ہے اسے گھر بنانے کے لیے پلیز میرے ساتھ چلو۔شامیر درانی گھر کے سکھ کو ترس گیا ہے۔شامیر درانی تو کب سے مر چکا تھا۔جب سے پتا چلا کے تم آج بھی میری ہو تو اس بے جان جسم میں جان پڑی ہے۔پلیز گھر چلو۔۔ وہ گھر تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ شامیر میرال کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے ہوئے اس سے التجا کرنے لگا۔ شامیر میں آپ کے ساتھ گھر تو تب چلوں گی ناں،، جب میں یہ مانوں گی کبھی کہ آپ میرے شوہر ہیں۔ آپ کچھ بھی کر لیں جتنے بھی ثبوت لے آئیں،، میں آپ کو اب شوہر کے روپ میں قبول نہیں کر سکتی۔ میرال شامیر کے ہاتھ نفرت سے جھٹکتے اندر چلی گئی تھی۔ شامیر کافی دیر تک مضطرب انداز میں کھڑا اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر خاموشی سے اپنا دردِ دل دبائے اندر کی طرف چل پڑا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈرائنگ روم میں اس وقت طلحہ، اشفاق صاحب اور ریحانہ بیگم بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے ہی سر جھکائے فرخندہ اور شاہدہ بیٹھیں تھیں۔ ایک طرف شامیر دُرانی خاموشی سے نظریں نیچے کارپٹ پر جمائے سنجیدہ چہرہ لیے بیٹھا تھا۔ میرال ایک طرف کھڑی تھی۔ ڈرائنگ روم میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اسی خاموشی کو طلحہ کی سنجیدہ آواز نے توڑا۔ شامیر یہ کیا کہہ رہے ہو؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تم نے میرال کو طلاق نہیں دی۔ وہ خلع کے پیپرز ہم سب نے دیکھے تھے۔ بلکہ آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں جس پر تمھارے سائن موجود ہیں۔چلو ایک لمحے کو ہم اسے سچ مان بھی لیں کہ تمھارے اور میرال کے بیچ طلاق نہیں ہوئی۔ تو یہ تمھیں دو سال بعد یاد آیا ہے کہ تم نے طلاق نہیں دی۔ میری بہن کی زندگی کو تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے تم نے۔۔ آج تم میرے سامنے بیٹھے ہو کہ،،میرال آج بھی تمھاری بیوی ہے۔مگر ہمارا دل اب یہ بات ماننے سے انکاری ہے۔اب ہم اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ میرال کو طلاق ہو چکی ہے۔ ۔میری ایک بات کا جواب دو۔۔ اگر میرال تمھارے نکاح میں ہونے کے باوجود کہیں اور نکاح کرلیتی تو بتاؤ اس گناہ کا بوجھ کس پر ہوتا۔ طلحہ نے سنجیدہ لہجے میں شامیرسے سوال کیا۔ شامیر کا چہرہ پل میں سرخ ہوا تھا۔ آنکھیں ندامت سے جھکی تھیں وہ شامیر دُرانی جس کے سامنے کوئی نظر اٹھا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔ آج شامیر دُرانی نظریں اُٹھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس میں شامیر کا کوئی قصور نہیں ہے اس کا بس اتنا سا قصور ہے کہ اس نے اپنی بہن پر اعتبار کیا اس نے جو کہا وہ مان لیا۔ سارا قصور میرا ہے اس سب کی میں ذمہ دار ہوں۔ فرخندہ ہاتھ جوڑتے ہوئے سسک پڑی تھی۔ یہ سب کچھ میں نے کیا۔صرف حسد اور جلن میں۔ میں میرال کو برباد کرنا چاہتی تھی آج میں خود برباد ہو چکی ہوں۔ میں شروع دن سے میرال کو طلاق دلوانا چاہتی تھی اسے شامیر سے جدا کرنا چاہتی تھی۔ آج میرا شوہر میرا ہوتے ہوئے بھی میرا نہیں ہے۔ وقار نے دوسری شادی کرلی ہے میں صرف اس کی بیٹیوں کی ماں ہوں۔ میں نے میرال کے ساتھ کیا خدا نے مجھ سے میرا شوہر چھین لیا۔ صرف شوہر ہی نہیں میرا بھائی، میرا ہر رشتہ چھین لیا۔شامیر کی بڑی بہن ہونے کے ناتے مجھے تب ان دونوں کے بیچ صلح کروانی چاہیے تھی شامیر کو سمجھانا چاہیے تھا۔۔مگر میں وہ سب کچھ کرتی رہی۔ اپنا مقام خود ہی گرا دیا۔ پلیز مجھے معاف کر دیں ورنہ مجھے سکون نہیں ملے گا۔ فرخندہ روتے ہوئے معافی مانگنے لگی۔ شاہدہ ایک دم اٹھتے ہوئے میرال کے قدموں میں گر چکی تھی۔ میرال بی بی مجھے معاف کر دیں میں نے فرخندہ بی بی کا ساتھ دیا تھا۔ میں لالچ میں آگئی تھی۔ مجھے اپنی بیٹی کے اپریشن کے لیے پیسے چاہیے تھے۔ فرخندہ بی بی نے مجھے یہ جھوٹ بولنے کو کہا تھا میں اپنی بیٹی کے لیے یہ گھناؤنا کام کرنے کو تیار ہو گئی۔ جس بیٹی کے لیے میں نے یہ سب کیاوہ اللہ کو ہی پیاری ہو گئی اور میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تب مجھے احساس ہوا میں نے یہ کیا کر دیا۔ میری بیٹی بیمار تھی مگر ہمارے ساتھ تو تھی اس کا اپریشن کامیاب نہ ہو سکا اور وہ جاں بحق ہو گئی۔ کیسے ہوتا کامیاب میں نے اتنا بڑا گناہ کیا تھا۔ میاں بیوی کو جدا کر دیا۔ جو میاں بیوی کے درمیان نفاق ڈالتا ہے وہ خدا کے نزدیک شیطان سے بھی بد تر ہے۔ پلیز مجھے معاف کر دیں۔ شاہدہ میرال کے پاؤں پکڑے رو رہی تھی۔ میں یہ کیسے مان لوں،، آپ لوگ جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے؟ ہو سکتا ہے آپ سب مل کر ہمارے ساتھ پھر سے کوئی کھیل کھیل رہے ہوں۔یہ شامیر دُرانی کی کوئی گھٹیا چال ہو مجھے پھر سے رسوا کرنے کی۔ پہلے میری چھوٹی سی غلطی کو بنیاد بنا کر شامیر دُرانی نے مجھے ذلیل و رسوا کیا۔اب انھیں لگتا ہے کہ میرا اور مراد خان کے بیچ کچھ ہے تو شامیر دُرانی سے یہ برداشت نہیں ہو رہا۔ تبھی یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ میرال زہر خند لہجے میں بولی تو شامیر دُرانی نے بے چینی سے پہلو بدلا تھا۔ چہرہ غصے اور برداشت کی وجہ سے خطر ناک حد تک سرخ ہو گیا تھا۔ نہیں میرال،،۔ ایسا نہیں ہے تم مجھ سے کوئی بھی قسم لے لو،،،میں اپنی بچیوں کی قسم کھاتی ہوں،، تم لوگ آج بھی نکاح میں ہو۔ شامیر نے اس رات کوئی پیپرز سائن نہیں کیے تھے۔ اگر تمھیں پھر بھی یقین نہ آئے تو میں قرآن اُٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ فرخندہ تڑپ کر میرال کے قریب آ کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے روپڑی تھی۔ بس کریں فرخندہ آپا،،میں آپ لوگوں کی طرح اتنا نہیں گر سکتی کہ قرآن جیسی مقدس کتاب بیچ میں لے آؤں۔ مسئلہ یہاں یہی ہے ناں کہ شامیر دُرانی نے مجھے طلاق نہیں دی۔ یعنی کہ میں ابھی بھی شامیر دُرانی کے نکاح میں ہوں تو یہ قصہ آج اور ابھی ختم کرتے ہیں۔ میرال نے ڈرائنگ روم میں بیٹھے سب افراد کی طرف اپنی نظر دوڑائی تھی۔ سب میرال کی طرف متونہ تھے۔۔ شامیر دُرانی نے بھی اپنی سرد نظریں میرال پر گاڑھیں تھیں۔۔ تو ٹھیک ہے شامیر دُرانی ابھی اور سی وقت مجھے طلاق دے دیں تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ میرال اونچی آواز میں بولی تھی۔ شامیر دُرانی غصے سے صوفے سے کھڑا ہوا تھا۔ ہوش میں تو ہو میرال۔ یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم؟ شامیر غصے سے دھاڑا تھا۔ کیا بکواس کر رہی ہوں۔ دو سال سے میں طلاق یافتہ کہلا رہی ہوں۔ میرا پورا خاندان جانتا ہے کہ مجھے طلاق ہو چکی ہے۔ بلکہ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دا گریٹ شامیر دُرانی کا مجھ سے دل بھر چکا تھا اس لیے نے مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا۔ میرے ماں باپ اور بھائی کو اونچے گھرانے میں شادی کرنے پر طعنے دیتے ہیں۔ کہنے والے تو کہتے ہیں مجھے اپنی خوبصورتی پر بڑا غرور تھا۔ دیکھو شامیر دُرانی نے کیسے مجھے منہ کے بل گرایا۔ میرال خود پر استھزائیہ ہنسی تھی۔ میرال یہ سب کچھ جو بھی ہوا،، اس میں سزا صرف تم نے نہیں پائی،، میں نے بھی پائی ہے۔ یہ دو سال صدیوں کے برارا تھے۔ نہ میں زندوں میں تھا اور نہ مردوں میں،، پلیز،،، میری ریکوسٹ ہے بات کو مت بڑھاؤ۔ ختم کرو یہ سب کچھ،،، میرے ساتھ گھر چلو۔ شامیر خود پر ضبط کرتا ہوا نرمی سے میرال کو سمجھانے لگا۔ میں آپ کے ساتھ اب گھر جاؤں گی یہ تو آپ بھول ہی جائیں۔ میں ایسے انسان کو اپنے شوہر کا درجہ نہیں دے سکتی جو کانوں کا اتنا کچا ہو۔ عورت پر اعتبار کرنا نہ جانتا ہو۔ عورت پر ہاتھ اٹھانا اپنی مردانگی سمجھتا ہو اور عورت اگر غلطی سے اُسے نامرد ہونے کا طعنہ دے دے تو وہ اسےبستر پر لے جا کر اپنی مردانگی ثابت کرنا فرض سمجھتا ہو۔ میرال شامیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھنکاری تھی۔ میرال۔۔۔۔شامیر دھاڑا تھا۔ بہت بکواس کر لی تم نے اور بہت بکواس سن لی میں نے۔ تم میرے نکاح میں ہو میری بیوی ہو۔ آج کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے۔ اس کو جتنی جلدی تسلیم کر لو تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ میری نرمی کو میری کمزوری مت سمجھو۔ مجھے پرانا والا شامیر دُرانی بننے پر مجبور مت کرو۔ شامیر سرد انداز میں کہتا وہاں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔". Zarpash Khan October 28 at 1:59 PM Don't copy paste without my permission Beqarar Writer Anam Kazmi Novels Episode 49 میرال گھر آکر کافی بے چین تھی۔ کیا یہ واقعی میں سچ ہے کہ وہ آج بھی شامیر دُرانی کی بیوی ہے۔ میرال اپنے کمرے میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت میں ٹہلنے لگی اس حقیقت کو اس کا دل ماننے سے انکاری تھا نہ ہی وہ اپنے دل میں خوشی کی کوئی رمق محسوس کر پا رہی تھی۔ بے شک گزرے ان دو سالوں میں وہ شامیر دُرانی کو بھول نہیں پائی تھی. مگر آج اس کے واپس لوٹنے پر اس کا دل کوئی خوشی محسوس نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کا دل جیسے ٹھہر گیا تھا، رک گیا تھا، آگے سے بڑھنے سے انکاری تھا۔ شامیر دُرانی آج بھی ویسا ہی ہے۔ اس کے لیے جنونی، اس کے لیے پوزیسو۔ اس کا دہکتا لمس محسوس کر کے میرال پر اچھی طرح واضح ہو گیا تھا۔ اس کی جنونیت پہلے سے زیادہ دیوانگی اختیار کر گئی ہے۔ اس کے لمس میں، اس کی باتوں میں جدائی کی تڑپ تھی، دیوانگی تھی، جنونیت تھی، محبت تھی، عشق تھا مگر شرمندگی نہ تھی۔ اس نے اس کے ساتھ جو کیا شامیر دُرانی نے ایک دفعہ بھی اس سے معافی نہیں مانگی تھی۔ وہ صرف ایک بات کا ذکر کرتا رہا کہ اس نے وہ پیپرز سائن نہیں کیے۔ مگر ایک دفعہ بھی اپنی غلطیوں کی معافی نہیں مانگی۔ وہ جتنا میرے لیے جنونی ہوتا جائے گا. اتنا ہی وہ مجھے اپنی مٹھی میں رکھنے کی کوشش کرے گا. جہاں سانس بھی مجھے اس کی مرضی سے لینا پڑے گا۔ کیا زندگی گزارنے کے لیے ایک مرد کا ساتھ ہونا ضروری ہے؟ کیا عورت ایک مرد کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتی؟ مجھے اپنی زندگی میں کسی مرد کا ساتھ نہیں چاہیے اس شامیر دُرانی کا تو بالکل بھی نہیں۔ میرال نے اپنا دکھتا سر دباتے ہوئے کراؤن کے ساتھ ٹیک لگائی تھی۔ میرال نے خوبصورت سا نفیس سی کڑھائی والا بلیک کلر کا فراک زیب تن کر رکھا تھا۔ فل آستین ہونے کے باوجود میرال کے دودھیا بازو نمایاں ہو رہے تھے۔ میرال نے اپنے خوبصورت بالوں کو سائیڈ سے ٹوسٹ کر کے باریک پِنز لگا کر بال کھلے چھوڑ رکھے تھے۔ ہونٹوں پر پنک لپ گلوز لگائے وہ بالکل تیار تھی آفس جانے کے لیے۔ میرال گلے میں دوپٹہ ڈالے اپنا بیگ اُٹھائے باہر گیٹ پر آئی ہی تھی کہ شامیر دُرانی کی گاڑی اس کے سامنے آ کر رُکی تھی۔ میرال کے دل کی دھڑکنیں یک دم تیز ہوئی تھیں۔ گاڑی میں سے شامیر دُرانی کے ساتھ فرخندہ اور شاہدہ بھی اتریں تھیں۔ میرال نے انھیں دیکھ کر غصے سے اپنی نگاہیں پھیریں تھیں۔ شامیر دُرانی گاڑی سے اُتر کر میرال کے قریب آ کر گہری اور استحقاق بھری نظروں سے میرال کو اوپر سے نیچے تک گھور کر دیکھا۔ اسے یوں تیار گلے میں دوپٹہ ڈالے گیٹ پر کھڑا دیکھ کر شامیر دُرانی کا غصے سے چہرہ سرخ ہوا تھا۔ فرخندہ اور شاہدہ میرال سے نظریں ملائے بغیر اندر چلی گئیں تھیں۔ میرال شامیر کو اگنور کیے آگے بڑھنے لگی تھی کہ شامیر نے اپنی سخت گرفت میں اس کی کلائی جکڑی تھی۔ کدھر؟ شامیر دُرانی نے اَبرو اچکاتے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔کہیں بھی جاؤں میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں ہوں۔ میرال نے اپنی کلائی جھٹکے سے چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ شامیر اس کی کلائی جکڑے گیٹ کے اندر داخل ہو چکا تھا۔ شامیر چھوریں مجھے۔ میرال غصے سے چلائی۔ تم یقینًا آفس جانے کے لیے تیار ہو۔ جب میں نے منع کیا تھا کہ تم یہ جاب نہیں کرو گی تو مطلب نہیں کرو گی۔ تمھیں ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی میری۔ شامیر نے سرد نگاہوں سے میرال کو دیکھا تھا۔ شامیر میں یہ جاب نہیں چھوڑوں گی۔ آپ کچھ بھی کر لیں میں یہ جاب کروں گی۔ میرال شامیر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد انداز میں بولی تھی۔ اچھا تو ایسا ہے۔ شامیر تمسخرانہ مسکرایا تھا۔ چلو پھر جا کر دکھاؤ۔ شامیر نے مسکراتے ہوئے اسے باہر جانے کا اشارہ کیا تھا۔ آپ مجھے چھوڑیں گے تو میں جاؤں گی ناں۔ میرال نے اس کی وحشی گرفت کی طرف اشارہ کیا تھا۔ جس کی گرفت میں ابھی بھی اس کی کلائی تھی۔ شامیر کے لب گہرے مسکرائے تھے۔ وہ تو میں تمھیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ جب جب مجھے چھوڑنے کی بات کرو گی تو تمھیں شامیر دُرانی کی جنونیت سے سامنا کرنا پڑے گا۔ شامیر نے اسے جھٹکے سے کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا تھا اس کی کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتا سختی سے خود میں پھینچا تھا۔ کیوں ستا رہی ہو مجھے دو سال کی جدائی کم تھی جو اب یوں تڑپانے لگی ہو مجھے۔۔ شامیر میرال کو سینے سے لگائے سرگوشی نما آواز میں مخمور لہجے میں بولا۔ میرال نے شامیر کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی مگر ہمیشہ کی طرح اس کا نازک وجود ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ شامیر میرال سے الگ ہوتا اس کے ماتھے پر اپنے دہکتے ہوئے لب رکھے تھے۔ تمھیں جاب کرنی ہے تو ٹھیک ہے میری جان،، اپنا آفس آکر سنبھالو۔ جس کی تم مالکن ہو۔ شامیر آنکھوں میں ڈھیروں محبت سموئے بولا۔ کون سا آفس میرا ہے،، جس کی میں مالکن ہو گئی؟ میرال نے طنزیہ مسکراتے ہوئے کہا۔۔ تم صرف اس آفس کی ہی نہیں میری جان،،،میری بھی مالکن ہو اور میں اپنی جان کا غلام۔ شامیر میرال کا طنز اگنور کرتا اسے بانہوں میں بھرتا ہوا بولا۔ بن ہی نہ جائیں کہیں آپ غلام میرے،،،میرال منہ بگاڑتے ہوئے طنزیہ بولی تو شامیر دُرانی نے قہقہہ لگایا تھا۔ میری جان مجھے نہیں پتہ تھا کہ ہر بیوی کی طرح میری میرال کی بھی خواہش ہے کہ اس کا شوہر اس کا غلام بن کر رہے۔۔شامیر اپنا نچلا لب دانتوں میں دباۓ شرارت سے میرال کا غصے سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر مہفوظ ہوا۔ ۔ تو جان شامیر وعدہ ہے یہ میرا ساری زندگی آپ کی غلامی کروں گا۔ شامیر درانی آگے پیچھے پھرے گا تمھارے،،،ہر فیصلہ ہر حکم تمھارا چلے گا۔ جیسے کہو گی،،ویسے ہی کروں گا۔۔۔گھر چلو میری لیڈی باس۔۔۔۔ بس ایک دفعہ گھر چلو میرے ساتھ۔ میرال جب سے تم وہ گھر چھوڑ کر آئی ہو وہ اداس، ویران ہے وہ ایک مکان بن گیا ہے اسے گھر بنانے کے لیے پلیز میرے ساتھ چلو۔شامیر درانی گھر کے سکھ کو ترس گیا ہے۔شامیر درانی تو کب سے مر چکا تھا۔جب سے پتا چلا کے تم آج بھی میری ہو تو اس بے جان جسم میں جان پڑی ہے۔پلیز گھر چلو۔۔ وہ گھر تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ شامیر میرال کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے ہوئے اس سے التجا کرنے لگا۔ شامیر میں آپ کے ساتھ گھر تو تب چلوں گی ناں،، جب میں یہ مانوں گی کبھی کہ آپ میرے شوہر ہیں۔ آپ کچھ بھی کر لیں جتنے بھی ثبوت لے آئیں،، میں آپ کو اب شوہر کے روپ میں قبول نہیں کر سکتی۔ میرال شامیر کے ہاتھ نفرت سے جھٹکتے اندر چلی گئی تھی۔ شامیر کافی دیر تک مضطرب انداز میں کھڑا اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر خاموشی سے اپنا دردِ دل دبائے اندر کی طرف چل پڑا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈرائنگ روم میں اس وقت طلحہ، اشفاق صاحب اور ریحانہ بیگم بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے ہی سر جھکائے فرخندہ اور شاہدہ بیٹھیں تھیں۔ ایک طرف شامیر دُرانی خاموشی سے نظریں نیچے کارپٹ پر جمائے سنجیدہ چہرہ لیے بیٹھا تھا۔ میرال ایک طرف کھڑی تھی۔ ڈرائنگ روم میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اسی خاموشی کو طلحہ کی سنجیدہ آواز نے توڑا۔ شامیر یہ کیا کہہ رہے ہو؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تم نے میرال کو طلاق نہیں دی۔ وہ خلع کے پیپرز ہم سب نے دیکھے تھے۔ بلکہ آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں جس پر تمھارے سائن موجود ہیں۔چلو ایک لمحے کو ہم اسے سچ مان بھی لیں کہ تمھارے اور میرال کے بیچ طلاق نہیں ہوئی۔ تو یہ تمھیں دو سال بعد یاد آیا ہے کہ تم نے طلاق نہیں دی۔ میری بہن کی زندگی کو تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے تم نے۔۔ آج تم میرے سامنے بیٹھے ہو کہ،،میرال آج بھی تمھاری بیوی ہے۔مگر ہمارا دل اب یہ بات ماننے سے انکاری ہے۔اب ہم اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ میرال کو طلاق ہو چکی ہے۔ ۔میری ایک بات کا جواب دو۔۔ اگر میرال تمھارے نکاح میں ہونے کے باوجود کہیں اور نکاح کرلیتی تو بتاؤ اس گناہ کا بوجھ کس پر ہوتا۔ طلحہ نے سنجیدہ لہجے میں شامیرسے سوال کیا۔ شامیر کا چہرہ پل میں سرخ ہوا تھا۔ آنکھیں ندامت سے جھکی تھیں وہ شامیر دُرانی جس کے سامنے کوئی نظر اٹھا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔ آج شامیر دُرانی نظریں اُٹھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس میں شامیر کا کوئی قصور نہیں ہے اس کا بس اتنا سا قصور ہے کہ اس نے اپنی بہن پر اعتبار کیا اس نے جو کہا وہ مان لیا۔ سارا قصور میرا ہے اس سب کی میں ذمہ دار ہوں۔ فرخندہ ہاتھ جوڑتے ہوئے سسک پڑی تھی۔ یہ سب کچھ میں نے کیا۔صرف حسد اور جلن میں۔ میں میرال کو برباد کرنا چاہتی تھی آج میں خود برباد ہو چکی ہوں۔ میں شروع دن سے میرال کو طلاق دلوانا چاہتی تھی اسے شامیر سے جدا کرنا چاہتی تھی۔ آج میرا شوہر میرا ہوتے ہوئے بھی میرا نہیں ہے۔ وقار نے دوسری شادی کرلی ہے میں صرف اس کی بیٹیوں کی ماں ہوں۔ میں نے میرال کے ساتھ کیا خدا نے مجھ سے میرا شوہر چھین لیا۔ صرف شوہر ہی نہیں میرا بھائی، میرا ہر رشتہ چھین لیا۔شامیر کی بڑی بہن ہونے کے ناتے مجھے تب ان دونوں کے بیچ صلح کروانی چاہیے تھی شامیر کو سمجھانا چاہیے تھا۔۔مگر میں وہ سب کچھ کرتی رہی۔ اپنا مقام خود ہی گرا دیا۔ پلیز مجھے معاف کر دیں ورنہ مجھے سکون نہیں ملے گا۔ فرخندہ روتے ہوئے معافی مانگنے لگی۔ شاہدہ ایک دم اٹھتے ہوئے میرال کے قدموں میں گر چکی تھی۔ میرال بی بی مجھے معاف کر دیں میں نے فرخندہ بی بی کا ساتھ دیا تھا۔ میں لالچ میں آگئی تھی۔ مجھے اپنی بیٹی کے اپریشن کے لیے پیسے چاہیے تھے۔ فرخندہ بی بی نے مجھے یہ جھوٹ بولنے کو کہا تھا میں اپنی بیٹی کے لیے یہ گھناؤنا کام کرنے کو تیار ہو گئی۔ جس بیٹی کے لیے میں نے یہ سب کیاوہ اللہ کو ہی پیاری ہو گئی اور میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تب مجھے احساس ہوا میں نے یہ کیا کر دیا۔ میری بیٹی بیمار تھی مگر ہمارے ساتھ تو تھی اس کا اپریشن کامیاب نہ ہو سکا اور وہ جاں بحق ہو گئی۔ کیسے ہوتا کامیاب میں نے اتنا بڑا گناہ کیا تھا۔ میاں بیوی کو جدا کر دیا۔ جو میاں بیوی کے درمیان نفاق ڈالتا ہے وہ خدا کے نزدیک شیطان سے بھی بد تر ہے۔ پلیز مجھے معاف کر دیں۔ شاہدہ میرال کے پاؤں پکڑے رو رہی تھی۔ میں یہ کیسے مان لوں،، آپ لوگ جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے؟ ہو سکتا ہے آپ سب مل کر ہمارے ساتھ پھر سے کوئی کھیل کھیل رہے ہوں۔یہ شامیر دُرانی کی کوئی گھٹیا چال ہو مجھے پھر سے رسوا کرنے کی۔ پہلے میری چھوٹی سی غلطی کو بنیاد بنا کر شامیر دُرانی نے مجھے ذلیل و رسوا کیا۔اب انھیں لگتا ہے کہ میرا اور مراد خان کے بیچ کچھ ہے تو شامیر دُرانی سے یہ برداشت نہیں ہو رہا۔ تبھی یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ میرال زہر خند لہجے میں بولی تو شامیر دُرانی نے بے چینی سے پہلو بدلا تھا۔ چہرہ غصے اور برداشت کی وجہ سے خطر ناک حد تک سرخ ہو گیا تھا۔ نہیں میرال،،۔ ایسا نہیں ہے تم مجھ سے کوئی بھی قسم لے لو،،،میں اپنی بچیوں کی قسم کھاتی ہوں،، تم لوگ آج بھی نکاح میں ہو۔ شامیر نے اس رات کوئی پیپرز سائن نہیں کیے تھے۔ اگر تمھیں پھر بھی یقین نہ آئے تو میں قرآن اُٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ فرخندہ تڑپ کر میرال کے قریب آ کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے روپڑی تھی۔ بس کریں فرخندہ آپا،،میں آپ لوگوں کی طرح اتنا نہیں گر سکتی کہ قرآن جیسی مقدس کتاب بیچ میں لے آؤں۔ مسئلہ یہاں یہی ہے ناں کہ شامیر دُرانی نے مجھے طلاق نہیں دی۔ یعنی کہ میں ابھی بھی شامیر دُرانی کے نکاح میں ہوں تو یہ قصہ آج اور ابھی ختم کرتے ہیں۔ میرال نے ڈرائنگ روم میں بیٹھے سب افراد کی طرف اپنی نظر دوڑائی تھی۔ سب میرال کی طرف متونہ تھے۔۔ شامیر دُرانی نے بھی اپنی سرد نظریں میرال پر گاڑھیں تھیں۔۔ تو ٹھیک ہے شامیر دُرانی ابھی اور سی وقت مجھے طلاق دے دیں تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ میرال اونچی آواز میں بولی تھی۔ شامیر دُرانی غصے سے صوفے سے کھڑا ہوا تھا۔ ہوش میں تو ہو میرال۔ یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم؟ شامیر غصے سے دھاڑا تھا۔ کیا بکواس کر رہی ہوں۔ دو سال سے میں طلاق یافتہ کہلا رہی ہوں۔ میرا پورا خاندان جانتا ہے کہ مجھے طلاق ہو چکی ہے۔ بلکہ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دا گریٹ شامیر دُرانی کا مجھ سے دل بھر چکا تھا اس لیے نے مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا۔ میرے ماں باپ اور بھائی کو اونچے گھرانے میں شادی کرنے پر طعنے دیتے ہیں۔ کہنے والے تو کہتے ہیں مجھے اپنی خوبصورتی پر بڑا غرور تھا۔ دیکھو شامیر دُرانی نے کیسے مجھے منہ کے بل گرایا۔ میرال خود پر استھزائیہ ہنسی تھی۔ میرال یہ سب کچھ جو بھی ہوا،، اس میں سزا صرف تم نے نہیں پائی،، میں نے بھی پائی ہے۔ یہ دو سال صدیوں کے برارا تھے۔ نہ میں زندوں میں تھا اور نہ مردوں میں،، پلیز،،، میری ریکوسٹ ہے بات کو مت بڑھاؤ۔ ختم کرو یہ سب کچھ،،، میرے ساتھ گھر چلو۔ شامیر خود پر ضبط کرتا ہوا نرمی سے میرال کو سمجھانے لگا۔ میں آپ کے ساتھ اب گھر جاؤں گی یہ تو آپ بھول ہی جائیں۔ میں ایسے انسان کو اپنے شوہر کا درجہ نہیں دے سکتی جو کانوں کا اتنا کچا ہو۔ عورت پر اعتبار کرنا نہ جانتا ہو۔ عورت پر ہاتھ اٹھانا اپنی مردانگی سمجھتا ہو اور عورت اگر غلطی سے اُسے نامرد ہونے کا طعنہ دے دے تو وہ اسےبستر پر لے جا کر اپنی مردانگی ثابت کرنا فرض سمجھتا ہو۔ میرال شامیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھنکاری تھی۔ میرال۔۔۔۔شامیر دھاڑا تھا۔ بہت بکواس کر لی تم نے اور بہت بکواس سن لی میں نے۔ تم میرے نکاح میں ہو میری بیوی ہو۔ آج کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے۔ اس کو جتنی جلدی تسلیم کر لو تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ میری نرمی کو میری کمزوری مت سمجھو۔ مجھے پرانا والا شامیر دُرانی بننے پر مجبور مت کرو۔ شامیر سرد انداز میں کہتا وہاں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
| | |
| | Zarpash Khan's post in ❣Bold Romantic... needs approval: "Don't copy paste without my permission Beqarar Writer Anam Kazmi Novels Episode 49 میرال گھر آکر کافی بے چین تھی۔ کیا یہ واقعی میں سچ ہے کہ وہ آج بھی شامیر دُرانی کی بیوی ہے۔ میرال اپنے کمرے میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت میں ٹہلنے لگی اس حقیقت کو اس کا دل ماننے سے انکاری تھا نہ ہی وہ اپنے دل میں خوشی کی کوئی رمق محسوس کر پا رہی تھی۔ بے شک گزرے ان دو سالوں میں وہ شامیر دُرانی کو بھول نہیں پائی تھی. مگر آج اس کے واپس لوٹنے پر اس کا دل کوئی خوشی محسوس نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کا دل جیسے ٹھہر گیا تھا، رک گیا تھا، آگے سے بڑھنے سے انکاری تھا۔ شامیر دُرانی آج بھی ویسا ہی ہے۔ اس کے لیے جنونی، اس کے لیے پوزیسو۔ اس کا دہکتا لمس محسوس کر کے میرال پر اچھی طرح واضح ہو گیا تھا۔ اس کی جنونیت پہلے سے زیادہ دیوانگی اختیار کر گئی ہے۔ اس کے لمس میں، اس کی باتوں میں جدائی کی تڑپ تھی، دیوانگی تھی، جنونیت تھی، محبت تھی، عشق تھا مگر شرمندگی نہ تھی۔ اس نے اس کے ساتھ جو کیا شامیر دُرانی نے ایک دفعہ بھی اس سے معافی نہیں مانگی تھی۔ وہ صرف ایک بات کا ذکر کرتا رہا کہ اس نے وہ پیپرز سائن نہیں کیے۔ مگر ایک دفعہ بھی اپنی غلطیوں کی معافی نہیں مانگی۔ وہ جتنا میرے لیے جنونی ہوتا جائے گا. اتنا ہی وہ مجھے اپنی مٹھی میں رکھنے کی کوشش کرے گا. جہاں سانس بھی مجھے اس کی مرضی سے لینا پڑے گا۔ کیا زندگی گزارنے کے لیے ایک مرد کا ساتھ ہونا ضروری ہے؟ کیا عورت ایک مرد کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتی؟ مجھے اپنی زندگی میں کسی مرد کا ساتھ نہیں چاہیے اس شامیر دُرانی کا تو بالکل بھی نہیں۔ میرال نے اپنا دکھتا سر دباتے ہوئے کراؤن کے ساتھ ٹیک لگائی تھی۔ میرال نے خوبصورت سا نفیس سی کڑھائی والا بلیک کلر کا فراک زیب تن کر رکھا تھا۔ فل آستین ہونے کے باوجود میرال کے دودھیا بازو نمایاں ہو رہے تھے۔ میرال نے اپنے خوبصورت بالوں کو سائیڈ سے ٹوسٹ کر کے باریک پِنز لگا کر بال کھلے چھوڑ رکھے تھے۔ ہونٹوں پر پنک لپ گلوز لگائے وہ بالکل تیار تھی آفس جانے کے لیے۔ میرال گلے میں دوپٹہ ڈالے اپنا بیگ اُٹھائے باہر گیٹ پر آئی ہی تھی کہ شامیر دُرانی کی گاڑی اس کے سامنے آ کر رُکی تھی۔ میرال کے دل کی دھڑکنیں یک دم تیز ہوئی تھیں۔ گاڑی میں سے شامیر دُرانی کے ساتھ فرخندہ اور شاہدہ بھی اتریں تھیں۔ میرال نے انھیں دیکھ کر غصے سے اپنی نگاہیں پھیریں تھیں۔ شامیر دُرانی گاڑی سے اُتر کر میرال کے قریب آ کر گہری اور استحقاق بھری نظروں سے میرال کو اوپر سے نیچے تک گھور کر دیکھا۔ اسے یوں تیار گلے میں دوپٹہ ڈالے گیٹ پر کھڑا دیکھ کر شامیر دُرانی کا غصے سے چہرہ سرخ ہوا تھا۔ فرخندہ اور شاہدہ میرال سے نظریں ملائے بغیر اندر چلی گئیں تھیں۔ میرال شامیر کو اگنور کیے آگے بڑھنے لگی تھی کہ شامیر نے اپنی سخت گرفت میں اس کی کلائی جکڑی تھی۔ کدھر؟ شامیر دُرانی نے اَبرو اچکاتے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔کہیں بھی جاؤں میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں ہوں۔ میرال نے اپنی کلائی جھٹکے سے چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ شامیر اس کی کلائی جکڑے گیٹ کے اندر داخل ہو چکا تھا۔ شامیر چھوریں مجھے۔ میرال غصے سے چلائی۔ تم یقینًا آفس جانے کے لیے تیار ہو۔ جب میں نے منع کیا تھا کہ تم یہ جاب نہیں کرو گی تو مطلب نہیں کرو گی۔ تمھیں ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی میری۔ شامیر نے سرد نگاہوں سے میرال کو دیکھا تھا۔ شامیر میں یہ جاب نہیں چھوڑوں گی۔ آپ کچھ بھی کر لیں میں یہ جاب کروں گی۔ میرال شامیر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد انداز میں بولی تھی۔ اچھا تو ایسا ہے۔ شامیر تمسخرانہ مسکرایا تھا۔ چلو پھر جا کر دکھاؤ۔ شامیر نے مسکراتے ہوئے اسے باہر جانے کا اشارہ کیا تھا۔ آپ مجھے چھوڑیں گے تو میں جاؤں گی ناں۔ میرال نے اس کی وحشی گرفت کی طرف اشارہ کیا تھا۔ جس کی گرفت میں ابھی بھی اس کی کلائی تھی۔ شامیر کے لب گہرے مسکرائے تھے۔ وہ تو میں تمھیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ جب جب مجھے چھوڑنے کی بات کرو گی تو تمھیں شامیر دُرانی کی جنونیت سے سامنا کرنا پڑے گا۔ شامیر نے اسے جھٹکے سے کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا تھا اس کی کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتا سختی سے خود میں پھینچا تھا۔ کیوں ستا رہی ہو مجھے دو سال کی جدائی کم تھی جو اب یوں تڑپانے لگی ہو مجھے۔۔ شامیر میرال کو سینے سے لگائے سرگوشی نما آواز میں مخمور لہجے میں بولا۔ میرال نے شامیر کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی مگر ہمیشہ کی طرح اس کا نازک وجود ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ شامیر میرال سے الگ ہوتا اس کے ماتھے پر اپنے دہکتے ہوئے لب رکھے تھے۔ تمھیں جاب کرنی ہے تو ٹھیک ہے میری جان،، اپنا آفس آکر سنبھالو۔ جس کی تم مالکن ہو۔ شامیر آنکھوں میں ڈھیروں محبت سموئے بولا۔ کون سا آفس میرا ہے،، جس کی میں مالکن ہو گئی؟ میرال نے طنزیہ مسکراتے ہوئے کہا۔۔ تم صرف اس آفس کی ہی نہیں میری جان،،،میری بھی مالکن ہو اور میں اپنی جان کا غلام۔ شامیر میرال کا طنز اگنور کرتا اسے بانہوں میں بھرتا ہوا بولا۔ بن ہی نہ جائیں کہیں آپ غلام میرے،،،میرال منہ بگاڑتے ہوئے طنزیہ بولی تو شامیر دُرانی نے قہقہہ لگایا تھا۔ میری جان مجھے نہیں پتہ تھا کہ ہر بیوی کی طرح میری میرال کی بھی خواہش ہے کہ اس کا شوہر اس کا غلام بن کر رہے۔۔شامیر اپنا نچلا لب دانتوں میں دباۓ شرارت سے میرال کا غصے سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر مہفوظ ہوا۔ ۔ تو جان شامیر وعدہ ہے یہ میرا ساری زندگی آپ کی غلامی کروں گا۔ شامیر درانی آگے پیچھے پھرے گا تمھارے،،،ہر فیصلہ ہر حکم تمھارا چلے گا۔ جیسے کہو گی،،ویسے ہی کروں گا۔۔۔گھر چلو میری لیڈی باس۔۔۔۔ بس ایک دفعہ گھر چلو میرے ساتھ۔ میرال جب سے تم وہ گھر چھوڑ کر آئی ہو وہ اداس، ویران ہے وہ ایک مکان بن گیا ہے اسے گھر بنانے کے لیے پلیز میرے ساتھ چلو۔شامیر درانی گھر کے سکھ کو ترس گیا ہے۔شامیر درانی تو کب سے مر چکا تھا۔جب سے پتا چلا کے تم آج بھی میری ہو تو اس بے جان جسم میں جان پڑی ہے۔پلیز گھر چلو۔۔ وہ گھر تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ شامیر میرال کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے ہوئے اس سے التجا کرنے لگا۔ شامیر میں آپ کے ساتھ گھر تو تب چلوں گی ناں،، جب میں یہ مانوں گی کبھی کہ آپ میرے شوہر ہیں۔ آپ کچھ بھی کر لیں جتنے بھی ثبوت لے آئیں،، میں آپ کو اب شوہر کے روپ میں قبول نہیں کر سکتی۔ میرال شامیر کے ہاتھ نفرت سے جھٹکتے اندر چلی گئی تھی۔ شامیر کافی دیر تک مضطرب انداز میں کھڑا اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر خاموشی سے اپنا دردِ دل دبائے اندر کی طرف چل پڑا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈرائنگ روم میں اس وقت طلحہ، اشفاق صاحب اور ریحانہ بیگم بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے ہی سر جھکائے فرخندہ اور شاہدہ بیٹھیں تھیں۔ ایک طرف شامیر دُرانی خاموشی سے نظریں نیچے کارپٹ پر جمائے سنجیدہ چہرہ لیے بیٹھا تھا۔ میرال ایک طرف کھڑی تھی۔ ڈرائنگ روم میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اسی خاموشی کو طلحہ کی سنجیدہ آواز نے توڑا۔ شامیر یہ کیا کہہ رہے ہو؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تم نے میرال کو طلاق نہیں دی۔ وہ خلع کے پیپرز ہم سب نے دیکھے تھے۔ بلکہ آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں جس پر تمھارے سائن موجود ہیں۔چلو ایک لمحے کو ہم اسے سچ مان بھی لیں کہ تمھارے اور میرال کے بیچ طلاق نہیں ہوئی۔ تو یہ تمھیں دو سال بعد یاد آیا ہے کہ تم نے طلاق نہیں دی۔ میری بہن کی زندگی کو تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے تم نے۔۔ آج تم میرے سامنے بیٹھے ہو کہ،،میرال آج بھی تمھاری بیوی ہے۔مگر ہمارا دل اب یہ بات ماننے سے انکاری ہے۔اب ہم اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ میرال کو طلاق ہو چکی ہے۔ ۔میری ایک بات کا جواب دو۔۔ اگر میرال تمھارے نکاح میں ہونے کے باوجود کہیں اور نکاح کرلیتی تو بتاؤ اس گناہ کا بوجھ کس پر ہوتا۔ طلحہ نے سنجیدہ لہجے میں شامیرسے سوال کیا۔ شامیر کا چہرہ پل میں سرخ ہوا تھا۔ آنکھیں ندامت سے جھکی تھیں وہ شامیر دُرانی جس کے سامنے کوئی نظر اٹھا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔ آج شامیر دُرانی نظریں اُٹھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس میں شامیر کا کوئی قصور نہیں ہے اس کا بس اتنا سا قصور ہے کہ اس نے اپنی بہن پر اعتبار کیا اس نے جو کہا وہ مان لیا۔ سارا قصور میرا ہے اس سب کی میں ذمہ دار ہوں۔ فرخندہ ہاتھ جوڑتے ہوئے سسک پڑی تھی۔ یہ سب کچھ میں نے کیا۔صرف حسد اور جلن میں۔ میں میرال کو برباد کرنا چاہتی تھی آج میں خود برباد ہو چکی ہوں۔ میں شروع دن سے میرال کو طلاق دلوانا چاہتی تھی اسے شامیر سے جدا کرنا چاہتی تھی۔ آج میرا شوہر میرا ہوتے ہوئے بھی میرا نہیں ہے۔ وقار نے دوسری شادی کرلی ہے میں صرف اس کی بیٹیوں کی ماں ہوں۔ میں نے میرال کے ساتھ کیا خدا نے مجھ سے میرا شوہر چھین لیا۔ صرف شوہر ہی نہیں میرا بھائی، میرا ہر رشتہ چھین لیا۔شامیر کی بڑی بہن ہونے کے ناتے مجھے تب ان دونوں کے بیچ صلح کروانی چاہیے تھی شامیر کو سمجھانا چاہیے تھا۔۔مگر میں وہ سب کچھ کرتی رہی۔ اپنا مقام خود ہی گرا دیا۔ پلیز مجھے معاف کر دیں ورنہ مجھے سکون نہیں ملے گا۔ فرخندہ روتے ہوئے معافی مانگنے لگی۔ شاہدہ ایک دم اٹھتے ہوئے میرال کے قدموں میں گر چکی تھی۔ میرال بی بی مجھے معاف کر دیں میں نے فرخندہ بی بی کا ساتھ دیا تھا۔ میں لالچ میں آگئی تھی۔ مجھے اپنی بیٹی کے اپریشن کے لیے پیسے چاہیے تھے۔ فرخندہ بی بی نے مجھے یہ جھوٹ بولنے کو کہا تھا میں اپنی بیٹی کے لیے یہ گھناؤنا کام کرنے کو تیار ہو گئی۔ جس بیٹی کے لیے میں نے یہ سب کیاوہ اللہ کو ہی پیاری ہو گئی اور میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تب مجھے احساس ہوا میں نے یہ کیا کر دیا۔ میری بیٹی بیمار تھی مگر ہمارے ساتھ تو تھی اس کا اپریشن کامیاب نہ ہو سکا اور وہ جاں بحق ہو گئی۔ کیسے ہوتا کامیاب میں نے اتنا بڑا گناہ کیا تھا۔ میاں بیوی کو جدا کر دیا۔ جو میاں بیوی کے درمیان نفاق ڈالتا ہے وہ خدا کے نزدیک شیطان سے بھی بد تر ہے۔ پلیز مجھے معاف کر دیں۔ شاہدہ میرال کے پاؤں پکڑے رو رہی تھی۔ میں یہ کیسے مان لوں،، آپ لوگ جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے؟ ہو سکتا ہے آپ سب مل کر ہمارے ساتھ پھر سے کوئی کھیل کھیل رہے ہوں۔یہ شامیر دُرانی کی کوئی گھٹیا چال ہو مجھے پھر سے رسوا کرنے کی۔ پہلے میری چھوٹی سی غلطی کو بنیاد بنا کر شامیر دُرانی نے مجھے ذلیل و رسوا کیا۔اب انھیں لگتا ہے کہ میرا اور مراد خان کے بیچ کچھ ہے تو شامیر دُرانی سے یہ برداشت نہیں ہو رہا۔ تبھی یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ میرال زہر خند لہجے میں بولی تو شامیر دُرانی نے بے چینی سے پہلو بدلا تھا۔ چہرہ غصے اور برداشت کی وجہ سے خطر ناک حد تک سرخ ہو گیا تھا۔ نہیں میرال،،۔ ایسا نہیں ہے تم مجھ سے کوئی بھی قسم لے لو،،،میں اپنی بچیوں کی قسم کھاتی ہوں،، تم لوگ آج بھی نکاح میں ہو۔ شامیر نے اس رات کوئی پیپرز سائن نہیں کیے تھے۔ اگر تمھیں پھر بھی یقین نہ آئے تو میں قرآن اُٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ فرخندہ تڑپ کر میرال کے قریب آ کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے روپڑی تھی۔ بس کریں فرخندہ آپا،،میں آپ لوگوں کی طرح اتنا نہیں گر سکتی کہ قرآن جیسی مقدس کتاب بیچ میں لے آؤں۔ مسئلہ یہاں یہی ہے ناں کہ شامیر دُرانی نے مجھے طلاق نہیں دی۔ یعنی کہ میں ابھی بھی شامیر دُرانی کے نکاح میں ہوں تو یہ قصہ آج اور ابھی ختم کرتے ہیں۔ میرال نے ڈرائنگ روم میں بیٹھے سب افراد کی طرف اپنی نظر دوڑائی تھی۔ سب میرال کی طرف متونہ تھے۔۔ شامیر دُرانی نے بھی اپنی سرد نظریں میرال پر گاڑھیں تھیں۔۔ تو ٹھیک ہے شامیر دُرانی ابھی اور سی وقت مجھے طلاق دے دیں تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ میرال اونچی آواز میں بولی تھی۔ شامیر دُرانی غصے سے صوفے سے کھڑا ہوا تھا۔ ہوش میں تو ہو میرال۔ یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم؟ شامیر غصے سے دھاڑا تھا۔ کیا بکواس کر رہی ہوں۔ دو سال سے میں طلاق یافتہ کہلا رہی ہوں۔ میرا پورا خاندان جانتا ہے کہ مجھے طلاق ہو چکی ہے۔ بلکہ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دا گریٹ شامیر دُرانی کا مجھ سے دل بھر چکا تھا اس لیے نے مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا۔ میرے ماں باپ اور بھائی کو اونچے گھرانے میں شادی کرنے پر طعنے دیتے ہیں۔ کہنے والے تو کہتے ہیں مجھے اپنی خوبصورتی پر بڑا غرور تھا۔ دیکھو شامیر دُرانی نے کیسے مجھے منہ کے بل گرایا۔ میرال خود پر استھزائیہ ہنسی تھی۔ میرال یہ سب کچھ جو بھی ہوا،، اس میں سزا صرف تم نے نہیں پائی،، میں نے بھی پائی ہے۔ یہ دو سال صدیوں کے برارا تھے۔ نہ میں زندوں میں تھا اور نہ مردوں میں،، پلیز،،، میری ریکوسٹ ہے بات کو مت بڑھاؤ۔ ختم کرو یہ سب کچھ،،، میرے ساتھ گھر چلو۔ شامیر خود پر ضبط کرتا ہوا نرمی سے میرال کو سمجھانے لگا۔ میں آپ کے ساتھ اب گھر جاؤں گی یہ تو آپ بھول ہی جائیں۔ میں ایسے انسان کو اپنے شوہر کا درجہ نہیں دے سکتی جو کانوں کا اتنا کچا ہو۔ عورت پر اعتبار کرنا نہ جانتا ہو۔ عورت پر ہاتھ اٹھانا اپنی مردانگی سمجھتا ہو اور عورت اگر غلطی سے اُسے نامرد ہونے کا طعنہ دے دے تو وہ اسےبستر پر لے جا کر اپنی مردانگی ثابت کرنا فرض سمجھتا ہو۔ میرال شامیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھنکاری تھی۔ میرال۔۔۔۔شامیر دھاڑا تھا۔ بہت بکواس کر لی تم نے اور بہت بکواس سن لی میں نے۔ تم میرے نکاح میں ہو میری بیوی ہو۔ آج کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے۔ اس کو جتنی جلدی تسلیم کر لو تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ میری نرمی کو میری کمزوری مت سمجھو۔ مجھے پرانا والا شامیر دُرانی بننے پر مجبور مت کرو۔ شامیر سرد انداز میں کہتا وہاں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔". | | | | Zarpash Khan | October 28 at 1:59 PM |
| | Don't copy paste without my permission Beqarar Writer Anam Kazmi Novels Episode 49 میرال گھر آکر کافی بے چین تھی۔ کیا یہ واقعی میں سچ ہے کہ وہ آج بھی شامیر دُرانی کی بیوی ہے۔ میرال اپنے کمرے میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت میں ٹہلنے لگی اس حقیقت کو اس کا دل ماننے سے انکاری تھا نہ ہی وہ اپنے دل میں خوشی کی کوئی رمق محسوس کر پا رہی تھی۔ بے شک گزرے ان دو سالوں میں وہ شامیر دُرانی کو بھول نہیں پائی تھی. مگر آج اس کے واپس لوٹنے پر اس کا دل کوئی خوشی محسوس نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کا دل جیسے ٹھہر گیا تھا، رک گیا تھا، آگے سے بڑھنے سے انکاری تھا۔ شامیر دُرانی آج بھی ویسا ہی ہے۔ اس کے لیے جنونی، اس کے لیے پوزیسو۔ اس کا دہکتا لمس محسوس کر کے میرال پر اچھی طرح واضح ہو گیا تھا۔ اس کی جنونیت پہلے سے زیادہ دیوانگی اختیار کر گئی ہے۔ اس کے لمس میں، اس کی باتوں میں جدائی کی تڑپ تھی، دیوانگی تھی، جنونیت تھی، محبت تھی، عشق تھا مگر شرمندگی نہ تھی۔ اس نے اس کے ساتھ جو کیا شامیر دُرانی نے ایک دفعہ بھی اس سے معافی نہیں مانگی تھی۔ وہ صرف ایک بات کا ذکر کرتا رہا کہ اس نے وہ پیپرز سائن نہیں کیے۔ مگر ایک دفعہ بھی اپنی غلطیوں کی معافی نہیں مانگی۔ وہ جتنا میرے لیے جنونی ہوتا جائے گا. اتنا ہی وہ مجھے اپنی مٹھی میں رکھنے کی کوشش کرے گا. جہاں سانس بھی مجھے اس کی مرضی سے لینا پڑے گا۔ کیا زندگی گزارنے کے لیے ایک مرد کا ساتھ ہونا ضروری ہے؟ کیا عورت ایک مرد کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتی؟ مجھے اپنی زندگی میں کسی مرد کا ساتھ نہیں چاہیے اس شامیر دُرانی کا تو بالکل بھی نہیں۔ میرال نے اپنا دکھتا سر دباتے ہوئے کراؤن کے ساتھ ٹیک لگائی تھی۔ میرال نے خوبصورت سا نفیس سی کڑھائی والا بلیک کلر کا فراک زیب تن کر رکھا تھا۔ فل آستین ہونے کے باوجود میرال کے دودھیا بازو نمایاں ہو رہے تھے۔ میرال نے اپنے خوبصورت بالوں کو سائیڈ سے ٹوسٹ کر کے باریک پِنز لگا کر بال کھلے چھوڑ رکھے تھے۔ ہونٹوں پر پنک لپ گلوز لگائے وہ بالکل تیار تھی آفس جانے کے لیے۔ میرال گلے میں دوپٹہ ڈالے اپنا بیگ اُٹھائے باہر گیٹ پر آئی ہی تھی کہ شامیر دُرانی کی گاڑی اس کے سامنے آ کر رُکی تھی۔ میرال کے دل کی دھڑکنیں یک دم تیز ہوئی تھیں۔ گاڑی میں سے شامیر دُرانی کے ساتھ فرخندہ اور شاہدہ بھی اتریں تھیں۔ میرال نے انھیں دیکھ کر غصے سے اپنی نگاہیں پھیریں تھیں۔ شامیر دُرانی گاڑی سے اُتر کر میرال کے قریب آ کر گہری اور استحقاق بھری نظروں سے میرال کو اوپر سے نیچے تک گھور کر دیکھا۔ اسے یوں تیار گلے میں دوپٹہ ڈالے گیٹ پر کھڑا دیکھ کر شامیر دُرانی کا غصے سے چہرہ سرخ ہوا تھا۔ فرخندہ اور شاہدہ میرال سے نظریں ملائے بغیر اندر چلی گئیں تھیں۔ میرال شامیر کو اگنور کیے آگے بڑھنے لگی تھی کہ شامیر نے اپنی سخت گرفت میں اس کی کلائی جکڑی تھی۔ کدھر؟ شامیر دُرانی نے اَبرو اچکاتے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔کہیں بھی جاؤں میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں ہوں۔ میرال نے اپنی کلائی جھٹکے سے چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ شامیر اس کی کلائی جکڑے گیٹ کے اندر داخل ہو چکا تھا۔ شامیر چھوریں مجھے۔ میرال غصے سے چلائی۔ تم یقینًا آفس جانے کے لیے تیار ہو۔ جب میں نے منع کیا تھا کہ تم یہ جاب نہیں کرو گی تو مطلب نہیں کرو گی۔ تمھیں ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی میری۔ شامیر نے سرد نگاہوں سے میرال کو دیکھا تھا۔ شامیر میں یہ جاب نہیں چھوڑوں گی۔ آپ کچھ بھی کر لیں میں یہ جاب کروں گی۔ میرال شامیر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد انداز میں بولی تھی۔ اچھا تو ایسا ہے۔ شامیر تمسخرانہ مسکرایا تھا۔ چلو پھر جا کر دکھاؤ۔ شامیر نے مسکراتے ہوئے اسے باہر جانے کا اشارہ کیا تھا۔ آپ مجھے چھوڑیں گے تو میں جاؤں گی ناں۔ میرال نے اس کی وحشی گرفت کی طرف اشارہ کیا تھا۔ جس کی گرفت میں ابھی بھی اس کی کلائی تھی۔ شامیر کے لب گہرے مسکرائے تھے۔ وہ تو میں تمھیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ جب جب مجھے چھوڑنے کی بات کرو گی تو تمھیں شامیر دُرانی کی جنونیت سے سامنا کرنا پڑے گا۔ شامیر نے اسے جھٹکے سے کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا تھا اس کی کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتا سختی سے خود میں پھینچا تھا۔ کیوں ستا رہی ہو مجھے دو سال کی جدائی کم تھی جو اب یوں تڑپانے لگی ہو مجھے۔۔ شامیر میرال کو سینے سے لگائے سرگوشی نما آواز میں مخمور لہجے میں بولا۔ میرال نے شامیر کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی مگر ہمیشہ کی طرح اس کا نازک وجود ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ شامیر میرال سے الگ ہوتا اس کے ماتھے پر اپنے دہکتے ہوئے لب رکھے تھے۔ تمھیں جاب کرنی ہے تو ٹھیک ہے میری جان،، اپنا آفس آکر سنبھالو۔ جس کی تم مالکن ہو۔ شامیر آنکھوں میں ڈھیروں محبت سموئے بولا۔ کون سا آفس میرا ہے،، جس کی میں مالکن ہو گئی؟ میرال نے طنزیہ مسکراتے ہوئے کہا۔۔ تم صرف اس آفس کی ہی نہیں میری جان،،،میری بھی مالکن ہو اور میں اپنی جان کا غلام۔ شامیر میرال کا طنز اگنور کرتا اسے بانہوں میں بھرتا ہوا بولا۔ بن ہی نہ جائیں کہیں آپ غلام میرے،،،میرال منہ بگاڑتے ہوئے طنزیہ بولی تو شامیر دُرانی نے قہقہہ لگایا تھا۔ میری جان مجھے نہیں پتہ تھا کہ ہر بیوی کی طرح میری میرال کی بھی خواہش ہے کہ اس کا شوہر اس کا غلام بن کر رہے۔۔شامیر اپنا نچلا لب دانتوں میں دباۓ شرارت سے میرال کا غصے سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر مہفوظ ہوا۔ ۔ تو جان شامیر وعدہ ہے یہ میرا ساری زندگی آپ کی غلامی کروں گا۔ شامیر درانی آگے پیچھے پھرے گا تمھارے،،،ہر فیصلہ ہر حکم تمھارا چلے گا۔ جیسے کہو گی،،ویسے ہی کروں گا۔۔۔گھر چلو میری لیڈی باس۔۔۔۔ بس ایک دفعہ گھر چلو میرے ساتھ۔ میرال جب سے تم وہ گھر چھوڑ کر آئی ہو وہ اداس، ویران ہے وہ ایک مکان بن گیا ہے اسے گھر بنانے کے لیے پلیز میرے ساتھ چلو۔شامیر درانی گھر کے سکھ کو ترس گیا ہے۔شامیر درانی تو کب سے مر چکا تھا۔جب سے پتا چلا کے تم آج بھی میری ہو تو اس بے جان جسم میں جان پڑی ہے۔پلیز گھر چلو۔۔ وہ گھر تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ شامیر میرال کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے ہوئے اس سے التجا کرنے لگا۔ شامیر میں آپ کے ساتھ گھر تو تب چلوں گی ناں،، جب میں یہ مانوں گی کبھی کہ آپ میرے شوہر ہیں۔ آپ کچھ بھی کر لیں جتنے بھی ثبوت لے آئیں،، میں آپ کو اب شوہر کے روپ میں قبول نہیں کر سکتی۔ میرال شامیر کے ہاتھ نفرت سے جھٹکتے اندر چلی گئی تھی۔ شامیر کافی دیر تک مضطرب انداز میں کھڑا اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر خاموشی سے اپنا دردِ دل دبائے اندر کی طرف چل پڑا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈرائنگ روم میں اس وقت طلحہ، اشفاق صاحب اور ریحانہ بیگم بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے ہی سر جھکائے فرخندہ اور شاہدہ بیٹھیں تھیں۔ ایک طرف شامیر دُرانی خاموشی سے نظریں نیچے کارپٹ پر جمائے سنجیدہ چہرہ لیے بیٹھا تھا۔ میرال ایک طرف کھڑی تھی۔ ڈرائنگ روم میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اسی خاموشی کو طلحہ کی سنجیدہ آواز نے توڑا۔ شامیر یہ کیا کہہ رہے ہو؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تم نے میرال کو طلاق نہیں دی۔ وہ خلع کے پیپرز ہم سب نے دیکھے تھے۔ بلکہ آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں جس پر تمھارے سائن موجود ہیں۔چلو ایک لمحے کو ہم اسے سچ مان بھی لیں کہ تمھارے اور میرال کے بیچ طلاق نہیں ہوئی۔ تو یہ تمھیں دو سال بعد یاد آیا ہے کہ تم نے طلاق نہیں دی۔ میری بہن کی زندگی کو تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے تم نے۔۔ آج تم میرے سامنے بیٹھے ہو کہ،،میرال آج بھی تمھاری بیوی ہے۔مگر ہمارا دل اب یہ بات ماننے سے انکاری ہے۔اب ہم اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ میرال کو طلاق ہو چکی ہے۔ ۔میری ایک بات کا جواب دو۔۔ اگر میرال تمھارے نکاح میں ہونے کے باوجود کہیں اور نکاح کرلیتی تو بتاؤ اس گناہ کا بوجھ کس پر ہوتا۔ طلحہ نے سنجیدہ لہجے میں شامیرسے سوال کیا۔ شامیر کا چہرہ پل میں سرخ ہوا تھا۔ آنکھیں ندامت سے جھکی تھیں وہ شامیر دُرانی جس کے سامنے کوئی نظر اٹھا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔ آج شامیر دُرانی نظریں اُٹھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس میں شامیر کا کوئی قصور نہیں ہے اس کا بس اتنا سا قصور ہے کہ اس نے اپنی بہن پر اعتبار کیا اس نے جو کہا وہ مان لیا۔ سارا قصور میرا ہے اس سب کی میں ذمہ دار ہوں۔ فرخندہ ہاتھ جوڑتے ہوئے سسک پڑی تھی۔ یہ سب کچھ میں نے کیا۔صرف حسد اور جلن میں۔ میں میرال کو برباد کرنا چاہتی تھی آج میں خود برباد ہو چکی ہوں۔ میں شروع دن سے میرال کو طلاق دلوانا چاہتی تھی اسے شامیر سے جدا کرنا چاہتی تھی۔ آج میرا شوہر میرا ہوتے ہوئے بھی میرا نہیں ہے۔ وقار نے دوسری شادی کرلی ہے میں صرف اس کی بیٹیوں کی ماں ہوں۔ میں نے میرال کے ساتھ کیا خدا نے مجھ سے میرا شوہر چھین لیا۔ صرف شوہر ہی نہیں میرا بھائی، میرا ہر رشتہ چھین لیا۔شامیر کی بڑی بہن ہونے کے ناتے مجھے تب ان دونوں کے بیچ صلح کروانی چاہیے تھی شامیر کو سمجھانا چاہیے تھا۔۔مگر میں وہ سب کچھ کرتی رہی۔ اپنا مقام خود ہی گرا دیا۔ پلیز مجھے معاف کر دیں ورنہ مجھے سکون نہیں ملے گا۔ فرخندہ روتے ہوئے معافی مانگنے لگی۔ شاہدہ ایک دم اٹھتے ہوئے میرال کے قدموں میں گر چکی تھی۔ میرال بی بی مجھے معاف کر دیں میں نے فرخندہ بی بی کا ساتھ دیا تھا۔ میں لالچ میں آگئی تھی۔ مجھے اپنی بیٹی کے اپریشن کے لیے پیسے چاہیے تھے۔ فرخندہ بی بی نے مجھے یہ جھوٹ بولنے کو کہا تھا میں اپنی بیٹی کے لیے یہ گھناؤنا کام کرنے کو تیار ہو گئی۔ جس بیٹی کے لیے میں نے یہ سب کیاوہ اللہ کو ہی پیاری ہو گئی اور میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تب مجھے احساس ہوا میں نے یہ کیا کر دیا۔ میری بیٹی بیمار تھی مگر ہمارے ساتھ تو تھی اس کا اپریشن کامیاب نہ ہو سکا اور وہ جاں بحق ہو گئی۔ کیسے ہوتا کامیاب میں نے اتنا بڑا گناہ کیا تھا۔ میاں بیوی کو جدا کر دیا۔ جو میاں بیوی کے درمیان نفاق ڈالتا ہے وہ خدا کے نزدیک شیطان سے بھی بد تر ہے۔ پلیز مجھے معاف کر دیں۔ شاہدہ میرال کے پاؤں پکڑے رو رہی تھی۔ میں یہ کیسے مان لوں،، آپ لوگ جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے؟ ہو سکتا ہے آپ سب مل کر ہمارے ساتھ پھر سے کوئی کھیل کھیل رہے ہوں۔یہ شامیر دُرانی کی کوئی گھٹیا چال ہو مجھے پھر سے رسوا کرنے کی۔ پہلے میری چھوٹی سی غلطی کو بنیاد بنا کر شامیر دُرانی نے مجھے ذلیل و رسوا کیا۔اب انھیں لگتا ہے کہ میرا اور مراد خان کے بیچ کچھ ہے تو شامیر دُرانی سے یہ برداشت نہیں ہو رہا۔ تبھی یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ میرال زہر خند لہجے میں بولی تو شامیر دُرانی نے بے چینی سے پہلو بدلا تھا۔ چہرہ غصے اور برداشت کی وجہ سے خطر ناک حد تک سرخ ہو گیا تھا۔ نہیں میرال،،۔ ایسا نہیں ہے تم مجھ سے کوئی بھی قسم لے لو،،،میں اپنی بچیوں کی قسم کھاتی ہوں،، تم لوگ آج بھی نکاح میں ہو۔ شامیر نے اس رات کوئی پیپرز سائن نہیں کیے تھے۔ اگر تمھیں پھر بھی یقین نہ آئے تو میں قرآن اُٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ فرخندہ تڑپ کر میرال کے قریب آ کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے روپڑی تھی۔ بس کریں فرخندہ آپا،،میں آپ لوگوں کی طرح اتنا نہیں گر سکتی کہ قرآن جیسی مقدس کتاب بیچ میں لے آؤں۔ مسئلہ یہاں یہی ہے ناں کہ شامیر دُرانی نے مجھے طلاق نہیں دی۔ یعنی کہ میں ابھی بھی شامیر دُرانی کے نکاح میں ہوں تو یہ قصہ آج اور ابھی ختم کرتے ہیں۔ میرال نے ڈرائنگ روم میں بیٹھے سب افراد کی طرف اپنی نظر دوڑائی تھی۔ سب میرال کی طرف متونہ تھے۔۔ شامیر دُرانی نے بھی اپنی سرد نظریں میرال پر گاڑھیں تھیں۔۔ تو ٹھیک ہے شامیر دُرانی ابھی اور سی وقت مجھے طلاق دے دیں تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ میرال اونچی آواز میں بولی تھی۔ شامیر دُرانی غصے سے صوفے سے کھڑا ہوا تھا۔ ہوش میں تو ہو میرال۔ یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم؟ شامیر غصے سے دھاڑا تھا۔ کیا بکواس کر رہی ہوں۔ دو سال سے میں طلاق یافتہ کہلا رہی ہوں۔ میرا پورا خاندان جانتا ہے کہ مجھے طلاق ہو چکی ہے۔ بلکہ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دا گریٹ شامیر دُرانی کا مجھ سے دل بھر چکا تھا اس لیے نے مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا۔ میرے ماں باپ اور بھائی کو اونچے گھرانے میں شادی کرنے پر طعنے دیتے ہیں۔ کہنے والے تو کہتے ہیں مجھے اپنی خوبصورتی پر بڑا غرور تھا۔ دیکھو شامیر دُرانی نے کیسے مجھے منہ کے بل گرایا۔ میرال خود پر استھزائیہ ہنسی تھی۔ میرال یہ سب کچھ جو بھی ہوا،، اس میں سزا صرف تم نے نہیں پائی،، میں نے بھی پائی ہے۔ یہ دو سال صدیوں کے برارا تھے۔ نہ میں زندوں میں تھا اور نہ مردوں میں،، پلیز،،، میری ریکوسٹ ہے بات کو مت بڑھاؤ۔ ختم کرو یہ سب کچھ،،، میرے ساتھ گھر چلو۔ شامیر خود پر ضبط کرتا ہوا نرمی سے میرال کو سمجھانے لگا۔ میں آپ کے ساتھ اب گھر جاؤں گی یہ تو آپ بھول ہی جائیں۔ میں ایسے انسان کو اپنے شوہر کا درجہ نہیں دے سکتی جو کانوں کا اتنا کچا ہو۔ عورت پر اعتبار کرنا نہ جانتا ہو۔ عورت پر ہاتھ اٹھانا اپنی مردانگی سمجھتا ہو اور عورت اگر غلطی سے اُسے نامرد ہونے کا طعنہ دے دے تو وہ اسےبستر پر لے جا کر اپنی مردانگی ثابت کرنا فرض سمجھتا ہو۔ میرال شامیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھنکاری تھی۔ میرال۔۔۔۔شامیر دھاڑا تھا۔ بہت بکواس کر لی تم نے اور بہت بکواس سن لی میں نے۔ تم میرے نکاح میں ہو میری بیوی ہو۔ آج کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے۔ اس کو جتنی جلدی تسلیم کر لو تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ میری نرمی کو میری کمزوری مت سمجھو۔ مجھے پرانا والا شامیر دُرانی بننے پر مجبور مت کرو۔ شامیر سرد انداز میں کہتا وہاں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|
| |
| |
| | |
| Was this email:Useful | Not Useful | |
| |
| | This message was sent to schwabby@firuzhasansu.cfd. If you don't want to receive these emails from Meta in the future, please unsubscribe. Meta Platforms, Inc., Attention: Community Support, 1 Meta Way, Menlo Park, CA 94025 |
| |
| To help keep your account secure, please don't forward this email. Learn more |
| |
|