|
Zarpash Khan 's post in ❣Bold Romantic... needs approval: "Don't copy paste without my permission Beqarar writer Anam Kazmi Novels Episode 45 رب نہ کرے یہ زندگی کسی کو دغا دے کسی کو رلائے نہ یہ دل کی لگی مولا سب کو دعا دے تیرے پہلو میں جو راتیں گزاریں شبِ مہتاب میں نظریں اتاریں ہم بھی رُکے ہیں اُس موڑ پر کوئی ہم کو صدا دے اپنے آفس میں گلاس ڈور سے وہ باہر نظریں جمائے جانے کن خیالوں میں کھویا تھا۔ سگریٹ ہاتھوں میں دبایا ہوا تھا جو اس کی انگلیوں کو جلا رہا تھ۔ا مگر اسے احساس نہیں ہو رہا تھا۔ آنکھیں بے انتہا سرخ تھیں اس کی آنکھوں کا رنگ ہی اب شائد یہی تھا۔ رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ موسم میں بے حد خنکی تھی۔ حیرت ہے وہ ایک جینز اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ کسی بھی چیز کا احساس ہونے کے لیے انسان کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ مگر وہ تو شاید کب سے مر چکا تھا۔ جسم باقی تھا۔ مگر سانسیں نہ تھیں۔ دل تھا مگر دھڑکن نہ تھی۔ وہ نا جانے کتنی دیر ایسے ہی خیالوں میں کھویا رہتا، اپنے سود و زیاں کا حساب کرتا رہتا۔ فون کی بیل اسے ماضی سے کھینچ کر لائی تھی۔ اس نے نمبر دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ فون اٹھایا۔ کیسے ہو شامیر؟ سپیکر پر آواز گونجی تھی۔ کیسا ہو سکتا ہوں میں آپا؟ شامیر کی آواز میں درد محسوس کر کے فرخندہ نے اپنے آنسوؤں پر قابو پایا تھا۔ شامیر اس ویک اینڈ گھر آ جاؤ آج دو سال ہو گئے ہیں تم نے اپنے گھر میں قدم نہیں رکھا۔ فرخندہ التجائیہ لہجے میں بولی۔ آپا پلیز مجھے مجبور مت کریں۔ میں وہاں نہیں آ سکتا۔ شامیر نے صاف انکار کیا تھا۔ شامیر اس گھر میں بہت سی اچھی یادیں ہیں ہماری۔ فرخندہ سسک پڑی تھی۔ اس گھر میں اچھی یادیں ہیں تو اس گھر میں بُری یادیں بھی ہیں۔ اس گھر میں کسی کی سسکیاں بھی ہیں۔ کسی کی حیوانیت اور درندگی بھی ہے۔ شامیر نے اپنی آفس چئیر پر اپنا ہاتھ بہت زور سے مارا تھا۔ بہت کچھ یاد آیا تھا۔ شامیر نے فون آف کر کے بہت زور سے ٹیبل پر پٹخا تھا۔ اپنی بیٔرڈ پر ہاتھ پھیرتے بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ چین نہ آیا تو سگریٹ پھر سے سلگا کر منہ کو لگایا تھا۔ اور آفس چیئر پر بیٹھتا آنکھوں کو بند کیا تھا مگر وہ پری چہرہ آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تھا۔ شامیر نے بے چینی سے اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوئے انسان نے شامیر کو دیکھ کر افسوس سے سر ہلایا تھا۔ شامیر کتنے سگریٹ پیے گا تو؟ کبھی تو اسے بخش دیا کر۔ماہر نے شامیر کو لتاڑا تھا۔ آج بھی اس اُمید میں سگریٹ پیتا ہوں کبھی تو جلے گی سینے میں اٹکی تصویر اس کی۔ شامیر نے اپنی انگلیوں کے پوروں سے سگریٹ کو بجھاتے ہوئے ماہر کو نظریں اٹھائے دیکھا تھا۔ کیا کام ہے وہ بتاؤ؟ اگر لیکچر دینا ہے تو تم جا سکتے ہو۔ شامیر چیئر سے اٹھتا دوبارہ سے گلاس وال کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈال رکھے تھے۔ شامیر میں تو اس لیے کہہ رہا تھا مجھے تمھاری فکر ہو رہی ہے۔ میں تمھیں اپنے بھائی کی جگہ دیتا ہوں۔ ماہر کے انداز میں شامیر کے لیے بے حد فکر تھی۔ رشتے جوڑنے سے اب مجھے ڈر لگتا ہے یہ خواری کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ تم میرے لیے بس میرے صرف ایک ایمپلاۓ ہو۔ شامیر کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔ ماہر شامیر کے بچپن کا دوست تھا۔۔شامیر نے اس کی تب مدد کی تھی جب اس کا ساتھ سب چھوڑ گئے تھے۔اس کی کالجز یونیورسٹی کی فیسیز دیتا رہا۔۔وہ بھی بنا اس پر کوئ بھی احسان جتاۓ بغیر۔۔اس کی بہن کی شادی کا سارا خرچ اٹھایا۔آج وہ جو کچھ تھا وہ شامیر کی وجہ سے تھا۔۔ایسے میں جب شامیر کو اس کی ضرورت تھی۔وہ اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔فرخندہ نے ماہر سے. التجا کی تھی وہ کبھی شامیر کو تنہا نہ چھوڑے۔اسی لیے وہ شامیر کے سرد رویے کے باوجود اس کے ساتھ تھا ماہر نے شامیر کی بات پر گہری سانس لی تھی۔ شامیر اس ہفتے ایک چیرٹی پارٹی رکھی گئی ہے۔ اس میں تم گیسٹ آف اونر ہو۔ بزنس سے جڑی تمام بڑی بڑی ہستیاں آ رہی ہیں۔ تمام میڈیا اور شوبز سے جڑے ستارے بھی ہوں گی۔ اور تمھارا انٹرویوبھی ہے۔ اس چیرٹی کے لیے بہت بڑی ڈونیشن کی اماؤنٹ تمھاری کمپنی پہلے ہی دے چکی ہے۔ یہ چیرٹی ان بچوں کے علاج کے لیے کی جا رہی ہے جو تھیلیسیمیاکے مریض ہیں۔ماہر نے ڈیٹیل میں شامیر کو بتایا تھا۔ ٹھیک ہے میری طرف سے ڈن ہے میں آجاؤں گا اس پارٹی میں۔ اب تم جا سکتے ہو۔ شامیر نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔ ماہر نے لب بھینچ کر شامیر کی پشت کو دیکھا تھا اور پھر لمبی سانس لیتا شامیر کو اس کے حال پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسا رہا تمھارا انٹرویو؟ طلحہ میرال کے سامنے صوفے پر بیٹھتا ہوا پوچھنے لگا۔ جو ہاتھ میں چائے کا کپ لیے لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ اچھا رہا انٹرویو۔ انفیکٹ مجھے جاب بھی مل چکی ہے مگر بھائی وہ عجیب سا انسان تھا۔ میرال کسی خیال سے چونکتے ہوئے بولی۔ کیا مطلب اس بات کا؟ طلحہ نے ابرو اچکاتے پوچھا۔ میرا مطلب ہے ایسے انسان بہت کم دیکھے ہیں۔ سٹریٹ فاروڈ۔ سیدھے اور سچے۔ جیسے اندر سے ویسا باہر سے۔ میرال کو اس کی آنکھیں یاد آئی تھیں جو بہت شفاف تھیں۔ یہ تو اچھی بات ہے آج کل ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں۔ تو تم جوائن کر رہی ہو پھر؟ طلحہ نے میرال کو دیکھا جو کسی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ پتہ نہیں بھائی۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔میرال نے بے دلی سے جواب دیا تھا۔دیکھو میرال تم دو سال سے ایسے ہی گھر بیٹھی ہو۔ تمھیں آگے بڑھنا چاہیے فارغ رہو گی۔ کبھی بھی تم اپنے ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا پاؤ گی۔ تمھارا مصروف رہنا ضروری ہے۔طلحہ نے اسے سمجھایا تھا۔ میں کہیں بھی چلی جاؤں میرا ماضی میرا پیچھا نہیں چھوڑنے والا۔ میرال تلخی سے بولی تھی۔ تب تک نہیں چھوڑے گا تمھارا پیچھا جب تک تم خود نہیں چھڑواؤ گی۔ تم یہ جاب کر رہی ہو۔ خان گروپ آف انڈسٹریز بہت نامور کمپنی ہے اور مراد خان بہت اچھا انسان ہے میری ایک دو بزنس پارٹیز میں ملاقات ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے تمھارے لیے یہ بہت بڑی اپورچونیٹی ہے۔ طلحہ کے سمجھانے پر میرال نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد خان کچن میں کافی پھینٹتے ہوئے کچھ گنگنا بھی رہا تھا۔ کافی خوشگوار موڈ لگ رہا تھا۔ کیا بات ہے آج موڈ بہت اچھا ہے میرے بیٹے کا۔۔ سکندر خان کچن میں مراد خان کو کافی بناتے دیکھ کر بے حد حیران ہوئے تھے۔ اسلامُ علیکم بابا۔ آپ کب آئے؟ مراد خان کافی چھوڑ کر سکندر کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ ابھی جب تم گنگنا رہے تھے۔ سکندر خان ابھی بھی حیرت کا شکار تھے۔ مراد خان آج بہت عرصے بعد کچن میں آیا تھا اور بہت عرصے بعد اتنا خوشگوار موڈ دیکھا تھا۔ ورنہ وہ تو صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کرتا تھا۔ وہ ظاہر نیہں کرتا تھا۔مگر سکندر خان جانتے تھے اپنے دل میں وہ کتنا درد چھپائے ہوئے ہے۔ مونا،، مراد خان کی بیوی جو اسے اپنے کسی پرانے عاشق کے لیے چھوڑ کر چلی گئی۔ مراد خان کو کتنا ہی عرصہ دھوکہ دیتی رہی۔ مراد خان کو جب پتہ چلا تو اس نے مونا کو طلاق دے دی تھی بلکہ حق مہر میں اپنی کتنی ہی جائیداد بھی اس کو دے دی تھی۔ مراد خان بتاتا نہیں تھا۔ مگر مونا کے دھوکے نے اسے اندر تک توڑ کر رکھ دیا تھا۔ لیکن آج اتنے عرصے بعد مراد خان بہت اچھے موڈ میں تھا۔ مراد خان نے کافی کا کپ سکندر خان کی طرف بڑھایا اور اپنا کافی کا کب تھام کر وہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھا تھا۔بابا مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ کئی چہروں کی خوبصورتی ہمیں اتنی متاثر نہیں کرتی جتنی ان کی معصومیت، سچائی اور پاکیزگی متاثر کرتی ہے۔ سکندر خان مراد خان کی بات پر گہرا مسکرئے تھے۔ کیا بات ہے؟ کس چہرے نے متاثر کر دیا میرے بیٹے کو؟ سکندر خان کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔ مراد خان کے منہ سے آج سالوں بعد کسی لڑکی کا ذکر سنا تھا۔ بابا،، وہ چہرہ بہت خوبصورت تھا اتنا خوبصورت کہ نظر اس پر ٹھہر جائے۔ مگر اس کی آنکھیں بہت شفاف تھیں ان میں ایک درد بھی تھا۔ مراد خان خیالوں میں کھویا بول رہا تھا۔ سکندر خان،، مراد خان کی بات پر سیدھے ہوئے تھے۔ کیا کہہ رہے ہوتم؟ بابا میں نے آج اس کو دیکھا اور پل میں اس چہرے کا اسیر ہو گیا۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وہ صرف میرے لیے بنی ہے اور میں اس کے لیے،،، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے اور اس کے بیچ بہت گہرا رشتہ ہو۔ شاید درد کا رشتہ ہے جو مجھے اس سے جوڑ رہا ہے۔ پتہ نہیں کیا ہے؟ مگر میں اسے بھول نہیں پا رہا۔ مراد خان کی آنکھوں میں جذبات کا طوفان ہچکولے لے رہا تھا۔ مراد تم نے کہا تھا کہ تم مونا کے بعد کبھی کسی پر یقین نہیں کرو گے۔ سکندر خان اسے کُرید رہے تھے۔ وہ دل ہی دل میں مراد کے لیے بہت خوش ہوئے تھے۔ آج اتنے سالوں بعد مراد کے چہرے پر خوشی دیکھی تھی۔ مگر وہ نہیں چاہتے تھے یہ وقتی ابال ہو۔ مراد خان مونا کے کیے کی سزا کسی اور کو دے۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے مراد کے دل میں محبت کی صرف کونپل پھوٹی ہے۔ یا پھر مراد کا دل یقین بھی کرتا ہے کیونکہ جس رشتے میں یقین نہ ہو وہ ریت کے گروندے بنانے کے مترادف ہے۔ مراد خان ہنسا تھا۔سکندر خان کی بات سن کر۔ بابا اسے دیکھ کر تو پوری دنیا پر یقین کرنے کو دل کرتا ہے۔ وہ بنی ہی یقین کرنے کے لیے ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے اس کے حسن کی چند لفظوں میں تعریف کروں تو وہ الفاظ ہیں۔ یقین، وفا، شرم،پاگیزگی، اینجل یہ الفاظ بنے ہی اس کے لیے ہیں۔ مراد خان کی آنکھوں کے پردے پر میرال کا چہرہ لہرایا تھا۔ مراد خان کے عنابی لب بے اختیار مسکرا اٹھے تھے۔ لیکن مراد تم آچھی طرح سوچ لو کیونکہ میں نہیں چاہتا تم ہرٹ ہو اور تمہاری وجہ سے کوئی اور ہرٹ ہو۔ بابا میں جانتا ہوں آپ کیا کہنا چا رہے ہیں۔۔آپ کو کیا لگتا ہے۔میں مونا کے کیے کی سزا کسی اور کو دوں گا۔بابا کمزرف ہوتے ہیں وہ مرد جو کسی کی غلطی کی سزا کسی اور سے لیتے ہیں اور وہ بھی ایک عورت سے انفیکٹ میرے نزدیک وہ مرد ہی نہیں ہوتے۔ یا وہ اپنے پیار پر یقین نہیں کرتے۔ یقین ہی تو پیار کی بنیاد ہے۔ جہاں تک مونا کی بات ہے میں نے مونا کے کیے کی سزا اسے نہیں دی تو کسی اور کو کیا دوں گا۔۔مراد خان سنجیدگی سے بولا تھا۔۔سکندر خان کو اپنے بیٹے پر فخر ہوا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِس میرال آپ ریڈی ہیں۔ مراد خان نے میرال کے کیبن میں آ کر میرال کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جو بلو کلر کے سمپل سے فراک میں ملبوس تھی۔ جس کے گلے پر چھوٹے چھوٹے شیشے لگے ہوئے تھے۔ میک اَپ میں صرف لِپ سٹک لگائی ہوئی تھی۔ جی سر میں ریڈی ہوں۔ میرال اپنی چیئر سے کھڑی ہوتی بولی تھی۔آر یو شیور! آپ ریڈی ہیں؟ مراد خان نے میرال کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے تو یہی لگتا ہے ۔میرال کے چہرے پر غصہ نمودار ہوا تھا مراد خان کے یوں دیکھنے پر۔ مراد خان قہقہہ لگا کر ہنس پڑا تھا۔ میرال کے یوں چڑنے پر۔ مِس میرال،، نو ڈاؤٹ،، آپ بے حد حسین لگ رہی ہیں، بے حد حسین۔ آپ اس حلیے میں بھی پارٹی میں چلی جائیں گی۔ تو یقینًا سب کی نظریں صرف آپ پر ہوں گی۔ مگر یہ ڈریس آپ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ آج بہت حسین لگیں۔ آپ وہ ڈریس پہنیں جو میں آپ کے لیے لایا ہوں۔ لیکن سر میں کس طرح۔۔۔ میرال ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔ پلیز۔۔ مِس میرال میں آپ سے ریکویسٹ کرتا ہوں۔ مراد خان التجائیہ لہجے میں بولا تھا۔ مراد خان نے میرال کو وہ ڈریس تھمایا تھا۔ جو بلیک اور گرے کمبی نیشن میں تھا۔بے حد سٹائلش لانگ میکسی تھی ۔جو بے حد خوبصورت اور ڈیلیکیٹ تھی اس پر لگے بیٹس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ پریٹی!میرال کے منہ سے وہ میکسی دیکھ کر نکلا تھا۔ تو آپ پہنیں گی ناں۔ مراد خان نے بہت آس سے پوچھا۔ میرال نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ مراد خان کا چہرہ خوشی سے چمکا تھا۔ مِس میرال،، یہ میکسی وِد آؤٹ دوپٹہ ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں ارینج کر دیتا ہوں۔ جیسے آپ کو کمفرٹ لگے۔ یہ آپ کی خود کی چوائس ہے۔ مراد خان نے میرال کو میکسی پکڑاتے ہوئے کہا۔ میرال کے ہاتھ کپکپائے تھے ایک پل کے لیے۔ کانوں میں کسی کی آواز گونجی تھی۔ آئیندہ تم مجھے بغیر دوپٹے کے نظر نہ آؤ۔۔ میرال کا چہرہ پل میں دھواں ہوا تھا۔ آنکھوں میں آنسو جھلملائے تھے۔ مراد خان میرال کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔ دوسرے ہی پل میرال میکسی پکڑے تیزی سے ریسٹ روم چلی گئی۔ میرال آئینے کے آگے کھڑی تھی آنسو آنکھوں سے رواں تھے۔ کیوں شامیر میں آج بھی آپ کو بھول نہیں پا رہی۔میرال نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا دوپٹہ سر پر اوڑھا تھا۔ اور خود کو دیکھتے ہوے بے تحاشا رو رہی تھی۔اس نے دوپٹہ سر پر لینا چھوڑ دیا تھا۔کہیں خود کو دیکھ کر شامیر کی یاد نہ آ جاۓ۔مگر کسی کی یاد آنے کے لیے کوئ وجہ نیہں چاہیے ہوتی۔بس وہ تو چپکے سے دل میں چلی آتی ہے۔ میں دعا کرتی ہوں شامیر میرا اور آپ کا سامنا کبھی نہ ہو۔ کیونکہ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں نفرت کرتی ہوں۔ آپ نے ایک پل نہیں لگایا مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ میں آپ کے بغیر کیسے جیوں گی۔ میرال اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرال تیار ہو کر آئی تو مراد خان جیسے سانس لینا بھول گیا تھا۔ میکسی اس کے نازک بدن پر بے انتہا دلکش لگ رہی تھی۔ میرال نے میسی سا سائڈ ڈھیلا جوڑا بنایا ہواتھا۔ آنکھوں پر گرے سموکی میک اَپ کیا تھا۔ میرال اتنی حسین لگ رہی تھی کہ مراد خان کی سانسیں اٹک گئی تھیں۔ لمحوں میں دل بے ایمان ہوا۔ دل پہلو میں سر پٹختے ہوئے اس کو چھونے کو بے قرار ہوا تھا۔ مراد خان سحر زدہ سا ہوتا ہوا دھیرے دھیرے میرال کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ اس سے پہلے مراد خان میرال کے قریب جا کر کوئی گستاخی کرتا۔ موبائل فون کی بیل پر چونکا تھا۔ لمحوں میں وہ جادوئی اثر سے باہر آیا تھا۔ مراد خان جلدی سے آفس سے باہر نکلا تھا۔ اور خود کو ڈپنے لگا۔کہ آج اس سے کچھ ایسا ویسا ہو جاتا تو اسے کتنی شرمندگی ہوتی۔ وہ میرال کو اس کی مرضی کے بغیر چھونا نہیں چاہتا تھا۔ بہت جلد میرال آپ کے تمام حقوق میں اپنے نام لکھوا لوں گا بہت جلد۔ کیونکہ آپ سے دور رہنا اب بہت مشکل ہو گیا ہے۔ مراد خان کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ بکھری تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مراد خان کے ساتھ پارٹی میں پہنچی۔ اس سے پہلے میڈیا ان تک آتا۔ میرال دو قدم پیچھے کو ہوئی تھی۔ مراد خان نے میرال کی ہچکچاہٹ اور گریز محسوس کر لیا تھا۔ مِس میرال آپ اگر کمفرٹیبل نہیں ہیں۔ میڈیا کے سامنے تو آپ ایک طرف بیٹھ سکتی ہیں۔میرال ایک طرف ہو گئی تھی وہ واقعی میں میڈیا کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی۔ مراد خان میڈیا سے جلد ہی ایکسکوز کرتے اس کے پاس آگیا تھا۔ مِس میرال آپ ٹھیک ہیں؟ آپ ایزی ہیں۔ مراد میرال کے پاس آ کر اس سے پوچھنے لگا۔ جو ایک طرف کھڑی تھی۔ جی سر میں بالکل ٹھیک ہوں۔وہ حیرت سے اس انسان کو دیکھ رہی تھی جو دنیا سے الگ تھا۔کتنی عزت تھی اس کی نظروں میں اس کے لئے۔۔کتنی فکر تھی۔ کتنا احترم کرتا تھا اس کی ہر بات کا۔۔اس ایک مہینے میں وہ مراد خان کو اچھی طرح جان چکی تھی۔ وہ تو اسے پہلی نظر میں ہی پہچان چکی تھی۔ ٹھیک کہتے ہیں کسی کو پہچاننے کے لئے ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اور کسی کے ساتھ برسوں رہو اپ اُسے پہچان نہیں سکتے۔۔میرال کی آنکھوں میں کسی کا عکس لہرایا تھا۔۔جسے وہ کبھی سمجھ ہی نہیں سکی۔جس کے بارے میں اُسے گمان تھا وہ اُسے کبھی نیہں چھوڑے گا۔ مر جاۓ گا مگر خود سے دور نیہں کرے گا۔اس نے ایک پل نیہں لگایا تھا اسے خود سے دور کرنے میں۔میرال کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ دوڑ گیئ تھی۔میں بھی کتنی پاگل ہوں شامیر،،مجھے کیوں لگا آپ مجھے کبھی نہیں چھوڑیں گیں۔مجھے تو یہ بھی گمان تھا کہ آپ مجھ پر یقین کریں گیں۔ کیا کیا تھا آپ نے میرے ساتھ ،،میری ذات کے پرخچے اُڑھا دیے۔۔ مجھے حیوانوں کی طرح نوچا تھا۔پھر بھی میں نے آپ کو معاف کر دیا تھا۔ مگر جو آپ نے مجھے دکھ اپنی جدائی کی صورت میں دیا ہے۔میں کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی نہیں۔۔میرال ہمیشہ کی طرح دل ہی دل میں اس بے حس انسان سے مخاطب تھی۔ جس کی یاد آج بھی اس کے جسم میں لہو بن کر دوڑتی تھی۔ مراد خان کے پکارنے پر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔ وہ مراد خان سے باتیں کر رہی تھی جب ایک شور اٹھا تھا۔ میڈیا بھاگتے ہوئے باہر گیا تھا۔ میرال حیران ہوئی شاید کوئی شوبز کا بہت بڑا ستارہ آیا ہے۔ میرال نے سوچا تھا کیونکہ شوبز سے ریلیٹیڈ بہت سے نامور فنکار بھی مدعو تھے اس پارٹی میں۔ میرال نے سامنے دیکھا۔ میرال کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا۔ سانسیں تھم گئی تھیں جیسے۔ وہ اس کے سامنے ہی تو تھا۔ بالکل ویسا جیسے آج سے دو سال پہلے تھا وہی مغروریت جو اس کی پرسنیلٹی کا حصہ تھی ویسے ہی شاندار بارعب پرسنیلٹی۔ وہ اعتماد سے چلتا ہوا سٹیج تک گیا تھا۔ میرال لمحوں میں پیچھے ایک ٹیبل پر چلی گئی تھی۔ میرال کی چال میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی۔ مراد خان حیران ہوا تھا۔ میرال کو کیا ہوا ہے؟ ابھی تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ اس کے ساتھ کھڑی تھی۔ میرال ایک طرف ٹیبل کے گرد بیٹھی اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا تھا۔ شامیر دُرانی کا بہت شاندار استقبال کیا گیا تھا اسے مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ کیونکہ اس فاؤنڈیشن کو چلا ہی وہ رہا تھا۔ شامیر بہت بڑی اماؤنٹ ہر مہینے مختلف فاؤنڈیشنز کو دیتا تھا۔ شامیر سٹیج سے نیچے آیا تو میڈیا پھر سے لپک کر شامیر دُرانی تک پہنچا تھا۔ اور شامیر سے مختلف سوال پوچھنے لگا۔ سر آپ کی کامیابی کا کیا راز ہے؟ سر آپ کا پوری دنیا میں ایک نام ہے آپ کی کامیابی کا سہرا کسے جاتا ہے۔ شامیر میڈیا کے سوالوں پر مسکرایا تھا۔ میری کامیابی کا سہرا میری ناکامی کو جاتا ہے۔ اک ابال تھا اک جنون تھا میرے جسم میں گرم خون تھا سوچا کچھ نہیں بس نکل گیا اپنی آگ میں خود ہی جل گیا ہر طرف یہاں موت ہے رواں زندگی مجھے لائی ہے کہاں دیکھا آئینہ تو میں ڈر گیا جینے کے لیے کتنا مر گیا شامیر نے یہ اشعار پڑھے تھے۔ میڈیا حیران ہوا۔ سر کیا مطلب؟ ایک رپورٹر نے پوچھا۔ میری باتوں پر نہ جایے۔ان کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ شامیر سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے ایکسکیوز کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ شامیر ایک طرف کھڑا ڈرنک کر رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس سے آ کر مل رہے تھے۔ مگر وہ کسی سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کر رہا تھا۔ پارٹی میں آئے لوگ اسے مغرور اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہے تھے۔ شامیر یہ کیا طریقہ ہے۔ یہاں کتنے ہی بڑے بڑے لوگ آئے ہیں وہ تجھ سے خود آ کر مل کر گئے ہیں تو کسی سے بھی سیدھی طرح نہیں مل رہا۔ بے شک تو بہت بڑا بزنس مین ہے۔ مگر اخلاق بھی کوئی چیز ہوتا ہے۔ ماہر شامیر کے پاس آکر سنجیدہ لہجے میں بولا تھا۔ شامیر اس کی بات کا کوئی بھی جواب دیے بغیر بے زاری سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ شامیر کی نظر سامنے پڑی تو دل کی دھڑکن رُک گئی تھی کائنات کی ہر چیز تھم گیئ تھی جیسے۔کچھ پلوں کے لیے سارے منظر دھندلا گیۓ تھے۔دل بے یقین ہوا تھا۔ آنکھوں کے پردوں پر نظر آنا بند ہو گیا تھا۔ شامیر نے اپنی سرخ آنکھیں مسلی تھی۔ دوسرے ہی پل آنکھوں میں وحشت سی اُبھری تھی۔ ہاں وہی تو تھی اس کی میرال، اس کی جان، اس کی زندگی، اس کا سب کچھ۔ بلیک اور گرے کمبی نیشن کی میکسی میں بالوں کا سائیڈ ڈھیلا جوڑا کیے بے حد حسین لگ رہی تھی۔ پہلے سے کہیں زیادہ بے حد حسین اتنی حسین لگ رہی تھی کہ اتنی حسین وہ اس کی ہمراہی میں بھی کبھی اسے اتنی حسین نہیں لگی تھی۔ شامیر نظریں جھپکنا بھول گیا تھا۔ وہ مراد خان کے ساتھ کھڑی مسکراتے ہوئے باتیں کر رہی تھی۔ شامیر کی آنکھیں لہو چھلکانے لگی تھیں۔ شامیر نے ہاتھ میں پکڑے گلاس پر اپنا دباؤ بڑھایا تھا۔ ماہر نے شامیر کی نظروں کا جھکاؤ محسوس کر لیا تھا۔ ماہر کے لب مسکرائے تھے۔ شامیر پہلی دفعہ کسی لڑکی کو یوں آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ ورنہ تو اس کا لڑکیوں میں انٹرسٹ نہ ہوئے کے برابر تھا۔ کتنی ہی لڑکیاں اس کے آگے پیچھ پھرتی تھیں مگر شامیر کسی کو گھاس نہیں ڈالتا تھا۔ آج بھی کتنی ماڈلز شامیر کے آگے پیچھے پھر رہی تھیں مگر شامیر نے کسی کو ایک نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ ماہر نے بھی شامیر کی پسند کو سراہا تھا۔ شامیر جیسے بندے کا ذوق ایسا ہی ہونا چاہیے سب سے جدا سب سے منفرد۔ ماہر کو بھی وہ لڑکی بے حد حسین لگی تھی سب سے جدا۔ خوبصورت ہے ناں۔۔۔شامیر ماہر کی آواز پر چونکا تھا۔ مراد خان کی نیو سیکرٹری ہے۔ کیا قسمت ہے مراد خان کی اتنی حسین سیکرٹری۔ ماہر دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تھا۔ شامیر نے سرد نظروں سے ماہر کو دیکھا تھا۔ اگر تیری بکواس ختم ہو گئی ہے تو،،تُو یہاں سے جا سکتا ہے۔ شامیر تیز آواز میں بولا تھا۔ شامیر اپنا گلاس کا ؤنٹر ٹیبل پر رکھتا بے چینی سے اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھرنے لگا۔ شامیر کے خون میں ابال اٹھنے لگے تھے وہ بغیر دوپٹے کے یوں بنی سنوری کھڑی تھی اور مراد خان اُسے جِن نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ نظریں ایک مرد کو پہچاننے میں دیر نہیں لگتی۔ ان نظروں میں ڈھیروں میٹھے اور نرم گرم جذبات تھے۔ جو شامیر کو آگ لگا گئے تھے۔ شامیر نے زور دار مکا ٹیبل پر مارا تھا۔ شامیر نے دوبارہ سے ا س طرف دیکھا مراد خان اس کی طرف جھکا اس سے کچھ کہہ رہا تھا۔ جس پر وہ مسکرائی تھی۔ شامیر اپنے بالوں میں اظطرابی کیفیت می ہاتھ پھیرنے لگا۔ شامیر اتنا تو میرال کی جدائی میں نہیں سلگا تھا۔ جتنا وہ یہ سوچ کر دن رات سلگتا تھا کہ وہ کسی کی نہ ہو جائے۔ اس کی جدائی اتنا نہیں تڑپاتی تھی جتنا اسے کسی کے ساتھ سوچ کر وہ تڑپ اٹھتا تھا۔ آج وہ بغیر دوپٹے کے اپنا دلنشیں روپ لیے پارٹی میں کھڑی تھی۔ پارٹی میں ہر کسی کی نظریں اسی پر تھیں۔ شامیر کا پورا بدن ایک اَن دیکھی آگ میں جل رہا تھا۔ کاش وہ اس پر حق رکھتا تو وہ کسی کو اس کا ایک بال بھی دیکھنے نہ دیتا۔ شامیر اضطرابی کیفیت میں اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھیرتے میرال کو سلگتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرال مراد خان کو ایکسکیوز کرتی اپنا فون سننے کے لیے باہر آئی ہی تھی کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا پارکنگ ایریا میں لایا تھا۔ اور اسے جھٹکےسے ایک گاڑی کے بونٹ پر پٹخا تھا۔ میرال کراہتی ہوئی پلٹ کر دیکھا تو اپنے سامنے شامیر دُرانی کو دیکھ کر زمین و آسمان اسے گھومتے ہوئے محسوس ہوئے۔ شامیر دُرانی۔ میرال لڑکھڑائی آواز میں بولی۔ شامیر نے سرخ اور سرد آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔ میرال کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔ ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئی تھیں شامیر نے اس کی کلائی پکڑ کر اس اپنے سامنے کھڑا کیا۔ میرال نے غصے سے اپنی کلائی چھڑوانی چاہی مگر اس کی گرفت کافی مضبوط تھی۔ چھوڑو مجھے۔ میرال شامیر سے نظریں چراتے ہوئے بولی۔ آج بھی اس کی آنکھوں میں دیکھنا میرال کو مشکل ترین لگا تھا۔ نیکسٹ ایپیسوڈ چاہیے تو زیادہ سے زیادہ لائکس دیں اور کمنٹس میں بتائیں ایپیسوڈ کیسی لگی۔نیو ٹوسٹ کیسا لگا۔۔۔۔۔ ". Zarpash Khan October 26 at 12:08 AM Don't copy paste without my permission Beqarar writer Anam Kazmi Novels Episode 45 رب نہ کرے یہ زندگی کسی کو دغا دے کسی کو رلائے نہ یہ دل کی لگی مولا سب کو دعا دے تیرے پہلو میں جو راتیں گزاریں شبِ مہتاب میں نظریں اتاریں ہم بھی رُکے ہیں اُس موڑ پر کوئی ہم کو صدا دے اپنے آفس میں گلاس ڈور سے وہ باہر نظریں جمائے جانے کن خیالوں میں کھویا تھا۔ سگریٹ ہاتھوں میں دبایا ہوا تھا جو اس کی انگلیوں کو جلا رہا تھ۔ا مگر اسے احساس نہیں ہو رہا تھا۔ آنکھیں بے انتہا سرخ تھیں اس کی آنکھوں کا رنگ ہی اب شائد یہی تھا۔ رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ موسم میں بے حد خنکی تھی۔ حیرت ہے وہ ایک جینز اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ کسی بھی چیز کا احساس ہونے کے لیے انسان کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ مگر وہ تو شاید کب سے مر چکا تھا۔ جسم باقی تھا۔ مگر سانسیں نہ تھیں۔ دل تھا مگر دھڑکن نہ تھی۔ وہ نا جانے کتنی دیر ایسے ہی خیالوں میں کھویا رہتا، اپنے سود و زیاں کا حساب کرتا رہتا۔ فون کی بیل اسے ماضی سے کھینچ کر لائی تھی۔ اس نے نمبر دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ فون اٹھایا۔ کیسے ہو شامیر؟ سپیکر پر آواز گونجی تھی۔ کیسا ہو سکتا ہوں میں آپا؟ شامیر کی آواز میں درد محسوس کر کے فرخندہ نے اپنے آنسوؤں پر قابو پایا تھا۔ شامیر اس ویک اینڈ گھر آ جاؤ آج دو سال ہو گئے ہیں تم نے اپنے گھر میں قدم نہیں رکھا۔ فرخندہ التجائیہ لہجے میں بولی۔ آپا پلیز مجھے مجبور مت کریں۔ میں وہاں نہیں آ سکتا۔ شامیر نے صاف انکار کیا تھا۔ شامیر اس گھر میں بہت سی اچھی یادیں ہیں ہماری۔ فرخندہ سسک پڑی تھی۔ اس گھر میں اچھی یادیں ہیں تو اس گھر میں بُری یادیں بھی ہیں۔ اس گھر میں کسی کی سسکیاں بھی ہیں۔ کسی کی حیوانیت اور درندگی بھی ہے۔ شامیر نے اپنی آفس چئیر پر اپنا ہاتھ بہت زور سے مارا تھا۔ بہت کچھ یاد آیا تھا۔ شامیر نے فون آف کر کے بہت زور سے ٹیبل پر پٹخا تھا۔ اپنی بیٔرڈ پر ہاتھ پھیرتے بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ چین نہ آیا تو سگریٹ پھر سے سلگا کر منہ کو لگایا تھا۔ اور آفس چیئر پر بیٹھتا آنکھوں کو بند کیا تھا مگر وہ پری چہرہ آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تھا۔ شامیر نے بے چینی سے اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوئے انسان نے شامیر کو دیکھ کر افسوس سے سر ہلایا تھا۔ شامیر کتنے سگریٹ پیے گا تو؟ کبھی تو اسے بخش دیا کر۔ماہر نے شامیر کو لتاڑا تھا۔ آج بھی اس اُمید میں سگریٹ پیتا ہوں کبھی تو جلے گی سینے میں اٹکی تصویر اس کی۔ شامیر نے اپنی انگلیوں کے پوروں سے سگریٹ کو بجھاتے ہوئے ماہر کو نظریں اٹھائے دیکھا تھا۔ کیا کام ہے وہ بتاؤ؟ اگر لیکچر دینا ہے تو تم جا سکتے ہو۔ شامیر چیئر سے اٹھتا دوبارہ سے گلاس وال کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈال رکھے تھے۔ شامیر میں تو اس لیے کہہ رہا تھا مجھے تمھاری فکر ہو رہی ہے۔ میں تمھیں اپنے بھائی کی جگہ دیتا ہوں۔ ماہر کے انداز میں شامیر کے لیے بے حد فکر تھی۔ رشتے جوڑنے سے اب مجھے ڈر لگتا ہے یہ خواری کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ تم میرے لیے بس میرے صرف ایک ایمپلاۓ ہو۔ شامیر کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔ ماہر شامیر کے بچپن کا دوست تھا۔۔شامیر نے اس کی تب مدد کی تھی جب اس کا ساتھ سب چھوڑ گئے تھے۔اس کی کالجز یونیورسٹی کی فیسیز دیتا رہا۔۔وہ بھی بنا اس پر کوئ بھی احسان جتاۓ بغیر۔۔اس کی بہن کی شادی کا سارا خرچ اٹھایا۔آج وہ جو کچھ تھا وہ شامیر کی وجہ سے تھا۔۔ایسے میں جب شامیر کو اس کی ضرورت تھی۔وہ اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔فرخندہ نے ماہر سے. التجا کی تھی وہ کبھی شامیر کو تنہا نہ چھوڑے۔اسی لیے وہ شامیر کے سرد رویے کے باوجود اس کے ساتھ تھا ماہر نے شامیر کی بات پر گہری سانس لی تھی۔ شامیر اس ہفتے ایک چیرٹی پارٹی رکھی گئی ہے۔ اس میں تم گیسٹ آف اونر ہو۔ بزنس سے جڑی تمام بڑی بڑی ہستیاں آ رہی ہیں۔ تمام میڈیا اور شوبز سے جڑے ستارے بھی ہوں گی۔ اور تمھارا انٹرویوبھی ہے۔ اس چیرٹی کے لیے بہت بڑی ڈونیشن کی اماؤنٹ تمھاری کمپنی پہلے ہی دے چکی ہے۔ یہ چیرٹی ان بچوں کے علاج کے لیے کی جا رہی ہے جو تھیلیسیمیاکے مریض ہیں۔ماہر نے ڈیٹیل میں شامیر کو بتایا تھا۔ ٹھیک ہے میری طرف سے ڈن ہے میں آجاؤں گا اس پارٹی میں۔ اب تم جا سکتے ہو۔ شامیر نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔ ماہر نے لب بھینچ کر شامیر کی پشت کو دیکھا تھا اور پھر لمبی سانس لیتا شامیر کو اس کے حال پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسا رہا تمھارا انٹرویو؟ طلحہ میرال کے سامنے صوفے پر بیٹھتا ہوا پوچھنے لگا۔ جو ہاتھ میں چائے کا کپ لیے لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ اچھا رہا انٹرویو۔ انفیکٹ مجھے جاب بھی مل چکی ہے مگر بھائی وہ عجیب سا انسان تھا۔ میرال کسی خیال سے چونکتے ہوئے بولی۔ کیا مطلب اس بات کا؟ طلحہ نے ابرو اچکاتے پوچھا۔ میرا مطلب ہے ایسے انسان بہت کم دیکھے ہیں۔ سٹریٹ فاروڈ۔ سیدھے اور سچے۔ جیسے اندر سے ویسا باہر سے۔ میرال کو اس کی آنکھیں یاد آئی تھیں جو بہت شفاف تھیں۔ یہ تو اچھی بات ہے آج کل ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں۔ تو تم جوائن کر رہی ہو پھر؟ طلحہ نے میرال کو دیکھا جو کسی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ پتہ نہیں بھائی۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔میرال نے بے دلی سے جواب دیا تھا۔دیکھو میرال تم دو سال سے ایسے ہی گھر بیٹھی ہو۔ تمھیں آگے بڑھنا چاہیے فارغ رہو گی۔ کبھی بھی تم اپنے ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا پاؤ گی۔ تمھارا مصروف رہنا ضروری ہے۔طلحہ نے اسے سمجھایا تھا۔ میں کہیں بھی چلی جاؤں میرا ماضی میرا پیچھا نہیں چھوڑنے والا۔ میرال تلخی سے بولی تھی۔ تب تک نہیں چھوڑے گا تمھارا پیچھا جب تک تم خود نہیں چھڑواؤ گی۔ تم یہ جاب کر رہی ہو۔ خان گروپ آف انڈسٹریز بہت نامور کمپنی ہے اور مراد خان بہت اچھا انسان ہے میری ایک دو بزنس پارٹیز میں ملاقات ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے تمھارے لیے یہ بہت بڑی اپورچونیٹی ہے۔ طلحہ کے سمجھانے پر میرال نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد خان کچن میں کافی پھینٹتے ہوئے کچھ گنگنا بھی رہا تھا۔ کافی خوشگوار موڈ لگ رہا تھا۔ کیا بات ہے آج موڈ بہت اچھا ہے میرے بیٹے کا۔۔ سکندر خان کچن میں مراد خان کو کافی بناتے دیکھ کر بے حد حیران ہوئے تھے۔ اسلامُ علیکم بابا۔ آپ کب آئے؟ مراد خان کافی چھوڑ کر سکندر کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ ابھی جب تم گنگنا رہے تھے۔ سکندر خان ابھی بھی حیرت کا شکار تھے۔ مراد خان آج بہت عرصے بعد کچن میں آیا تھا اور بہت عرصے بعد اتنا خوشگوار موڈ دیکھا تھا۔ ورنہ وہ تو صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کرتا تھا۔ وہ ظاہر نیہں کرتا تھا۔مگر سکندر خان جانتے تھے اپنے دل میں وہ کتنا درد چھپائے ہوئے ہے۔ مونا،، مراد خان کی بیوی جو اسے اپنے کسی پرانے عاشق کے لیے چھوڑ کر چلی گئی۔ مراد خان کو کتنا ہی عرصہ دھوکہ دیتی رہی۔ مراد خان کو جب پتہ چلا تو اس نے مونا کو طلاق دے دی تھی بلکہ حق مہر میں اپنی کتنی ہی جائیداد بھی اس کو دے دی تھی۔ مراد خان بتاتا نہیں تھا۔ مگر مونا کے دھوکے نے اسے اندر تک توڑ کر رکھ دیا تھا۔ لیکن آج اتنے عرصے بعد مراد خان بہت اچھے موڈ میں تھا۔ مراد خان نے کافی کا کپ سکندر خان کی طرف بڑھایا اور اپنا کافی کا کب تھام کر وہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھا تھا۔بابا مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ کئی چہروں کی خوبصورتی ہمیں اتنی متاثر نہیں کرتی جتنی ان کی معصومیت، سچائی اور پاکیزگی متاثر کرتی ہے۔ سکندر خان مراد خان کی بات پر گہرا مسکرئے تھے۔ کیا بات ہے؟ کس چہرے نے متاثر کر دیا میرے بیٹے کو؟ سکندر خان کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔ مراد خان کے منہ سے آج سالوں بعد کسی لڑکی کا ذکر سنا تھا۔ بابا،، وہ چہرہ بہت خوبصورت تھا اتنا خوبصورت کہ نظر اس پر ٹھہر جائے۔ مگر اس کی آنکھیں بہت شفاف تھیں ان میں ایک درد بھی تھا۔ مراد خان خیالوں میں کھویا بول رہا تھا۔ سکندر خان،، مراد خان کی بات پر سیدھے ہوئے تھے۔ کیا کہہ رہے ہوتم؟ بابا میں نے آج اس کو دیکھا اور پل میں اس چہرے کا اسیر ہو گیا۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وہ صرف میرے لیے بنی ہے اور میں اس کے لیے،،، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے اور اس کے بیچ بہت گہرا رشتہ ہو۔ شاید درد کا رشتہ ہے جو مجھے اس سے جوڑ رہا ہے۔ پتہ نہیں کیا ہے؟ مگر میں اسے بھول نہیں پا رہا۔ مراد خان کی آنکھوں میں جذبات کا طوفان ہچکولے لے رہا تھا۔ مراد تم نے کہا تھا کہ تم مونا کے بعد کبھی کسی پر یقین نہیں کرو گے۔ سکندر خان اسے کُرید رہے تھے۔ وہ دل ہی دل میں مراد کے لیے بہت خوش ہوئے تھے۔ آج اتنے سالوں بعد مراد کے چہرے پر خوشی دیکھی تھی۔ مگر وہ نہیں چاہتے تھے یہ وقتی ابال ہو۔ مراد خان مونا کے کیے کی سزا کسی اور کو دے۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے مراد کے دل میں محبت کی صرف کونپل پھوٹی ہے۔ یا پھر مراد کا دل یقین بھی کرتا ہے کیونکہ جس رشتے میں یقین نہ ہو وہ ریت کے گروندے بنانے کے مترادف ہے۔ مراد خان ہنسا تھا۔سکندر خان کی بات سن کر۔ بابا اسے دیکھ کر تو پوری دنیا پر یقین کرنے کو دل کرتا ہے۔ وہ بنی ہی یقین کرنے کے لیے ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے اس کے حسن کی چند لفظوں میں تعریف کروں تو وہ الفاظ ہیں۔ یقین، وفا، شرم،پاگیزگی، اینجل یہ الفاظ بنے ہی اس کے لیے ہیں۔ مراد خان کی آنکھوں کے پردے پر میرال کا چہرہ لہرایا تھا۔ مراد خان کے عنابی لب بے اختیار مسکرا اٹھے تھے۔ لیکن مراد تم آچھی طرح سوچ لو کیونکہ میں نہیں چاہتا تم ہرٹ ہو اور تمہاری وجہ سے کوئی اور ہرٹ ہو۔ بابا میں جانتا ہوں آپ کیا کہنا چا رہے ہیں۔۔آپ کو کیا لگتا ہے۔میں مونا کے کیے کی سزا کسی اور کو دوں گا۔بابا کمزرف ہوتے ہیں وہ مرد جو کسی کی غلطی کی سزا کسی اور سے لیتے ہیں اور وہ بھی ایک عورت سے انفیکٹ میرے نزدیک وہ مرد ہی نہیں ہوتے۔ یا وہ اپنے پیار پر یقین نہیں کرتے۔ یقین ہی تو پیار کی بنیاد ہے۔ جہاں تک مونا کی بات ہے میں نے مونا کے کیے کی سزا اسے نہیں دی تو کسی اور کو کیا دوں گا۔۔مراد خان سنجیدگی سے بولا تھا۔۔سکندر خان کو اپنے بیٹے پر فخر ہوا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِس میرال آپ ریڈی ہیں۔ مراد خان نے میرال کے کیبن میں آ کر میرال کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جو بلو کلر کے سمپل سے فراک میں ملبوس تھی۔ جس کے گلے پر چھوٹے چھوٹے شیشے لگے ہوئے تھے۔ میک اَپ میں صرف لِپ سٹک لگائی ہوئی تھی۔ جی سر میں ریڈی ہوں۔ میرال اپنی چیئر سے کھڑی ہوتی بولی تھی۔آر یو شیور! آپ ریڈی ہیں؟ مراد خان نے میرال کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے تو یہی لگتا ہے ۔میرال کے چہرے پر غصہ نمودار ہوا تھا مراد خان کے یوں دیکھنے پر۔ مراد خان قہقہہ لگا کر ہنس پڑا تھا۔ میرال کے یوں چڑنے پر۔ مِس میرال،، نو ڈاؤٹ،، آپ بے حد حسین لگ رہی ہیں، بے حد حسین۔ آپ اس حلیے میں بھی پارٹی میں چلی جائیں گی۔ تو یقینًا سب کی نظریں صرف آپ پر ہوں گی۔ مگر یہ ڈریس آپ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ آج بہت حسین لگیں۔ آپ وہ ڈریس پہنیں جو میں آپ کے لیے لایا ہوں۔ لیکن سر میں کس طرح۔۔۔ میرال ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔ پلیز۔۔ مِس میرال میں آپ سے ریکویسٹ کرتا ہوں۔ مراد خان التجائیہ لہجے میں بولا تھا۔ مراد خان نے میرال کو وہ ڈریس تھمایا تھا۔ جو بلیک اور گرے کمبی نیشن میں تھا۔بے حد سٹائلش لانگ میکسی تھی ۔جو بے حد خوبصورت اور ڈیلیکیٹ تھی اس پر لگے بیٹس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ پریٹی!میرال کے منہ سے وہ میکسی دیکھ کر نکلا تھا۔ تو آپ پہنیں گی ناں۔ مراد خان نے بہت آس سے پوچھا۔ میرال نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ مراد خان کا چہرہ خوشی سے چمکا تھا۔ مِس میرال،، یہ میکسی وِد آؤٹ دوپٹہ ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں ارینج کر دیتا ہوں۔ جیسے آپ کو کمفرٹ لگے۔ یہ آپ کی خود کی چوائس ہے۔ مراد خان نے میرال کو میکسی پکڑاتے ہوئے کہا۔ میرال کے ہاتھ کپکپائے تھے ایک پل کے لیے۔ کانوں میں کسی کی آواز گونجی تھی۔ آئیندہ تم مجھے بغیر دوپٹے کے نظر نہ آؤ۔۔ میرال کا چہرہ پل میں دھواں ہوا تھا۔ آنکھوں میں آنسو جھلملائے تھے۔ مراد خان میرال کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔ دوسرے ہی پل میرال میکسی پکڑے تیزی سے ریسٹ روم چلی گئی۔ میرال آئینے کے آگے کھڑی تھی آنسو آنکھوں سے رواں تھے۔ کیوں شامیر میں آج بھی آپ کو بھول نہیں پا رہی۔میرال نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا دوپٹہ سر پر اوڑھا تھا۔ اور خود کو دیکھتے ہوے بے تحاشا رو رہی تھی۔اس نے دوپٹہ سر پر لینا چھوڑ دیا تھا۔کہیں خود کو دیکھ کر شامیر کی یاد نہ آ جاۓ۔مگر کسی کی یاد آنے کے لیے کوئ وجہ نیہں چاہیے ہوتی۔بس وہ تو چپکے سے دل میں چلی آتی ہے۔ میں دعا کرتی ہوں شامیر میرا اور آپ کا سامنا کبھی نہ ہو۔ کیونکہ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں نفرت کرتی ہوں۔ آپ نے ایک پل نہیں لگایا مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ میں آپ کے بغیر کیسے جیوں گی۔ میرال اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرال تیار ہو کر آئی تو مراد خان جیسے سانس لینا بھول گیا تھا۔ میکسی اس کے نازک بدن پر بے انتہا دلکش لگ رہی تھی۔ میرال نے میسی سا سائڈ ڈھیلا جوڑا بنایا ہواتھا۔ آنکھوں پر گرے سموکی میک اَپ کیا تھا۔ میرال اتنی حسین لگ رہی تھی کہ مراد خان کی سانسیں اٹک گئی تھیں۔ لمحوں میں دل بے ایمان ہوا۔ دل پہلو میں سر پٹختے ہوئے اس کو چھونے کو بے قرار ہوا تھا۔ مراد خان سحر زدہ سا ہوتا ہوا دھیرے دھیرے میرال کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ اس سے پہلے مراد خان میرال کے قریب جا کر کوئی گستاخی کرتا۔ موبائل فون کی بیل پر چونکا تھا۔ لمحوں میں وہ جادوئی اثر سے باہر آیا تھا۔ مراد خان جلدی سے آفس سے باہر نکلا تھا۔ اور خود کو ڈپنے لگا۔کہ آج اس سے کچھ ایسا ویسا ہو جاتا تو اسے کتنی شرمندگی ہوتی۔ وہ میرال کو اس کی مرضی کے بغیر چھونا نہیں چاہتا تھا۔ بہت جلد میرال آپ کے تمام حقوق میں اپنے نام لکھوا لوں گا بہت جلد۔ کیونکہ آپ سے دور رہنا اب بہت مشکل ہو گیا ہے۔ مراد خان کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ بکھری تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مراد خان کے ساتھ پارٹی میں پہنچی۔ اس سے پہلے میڈیا ان تک آتا۔ میرال دو قدم پیچھے کو ہوئی تھی۔ مراد خان نے میرال کی ہچکچاہٹ اور گریز محسوس کر لیا تھا۔ مِس میرال آپ اگر کمفرٹیبل نہیں ہیں۔ میڈیا کے سامنے تو آپ ایک طرف بیٹھ سکتی ہیں۔میرال ایک طرف ہو گئی تھی وہ واقعی میں میڈیا کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی۔ مراد خان میڈیا سے جلد ہی ایکسکوز کرتے اس کے پاس آگیا تھا۔ مِس میرال آپ ٹھیک ہیں؟ آپ ایزی ہیں۔ مراد میرال کے پاس آ کر اس سے پوچھنے لگا۔ جو ایک طرف کھڑی تھی۔ جی سر میں بالکل ٹھیک ہوں۔وہ حیرت سے اس انسان کو دیکھ رہی تھی جو دنیا سے الگ تھا۔کتنی عزت تھی اس کی نظروں میں اس کے لئے۔۔کتنی فکر تھی۔ کتنا احترم کرتا تھا اس کی ہر بات کا۔۔اس ایک مہینے میں وہ مراد خان کو اچھی طرح جان چکی تھی۔ وہ تو اسے پہلی نظر میں ہی پہچان چکی تھی۔ ٹھیک کہتے ہیں کسی کو پہچاننے کے لئے ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اور کسی کے ساتھ برسوں رہو اپ اُسے پہچان نہیں سکتے۔۔میرال کی آنکھوں میں کسی کا عکس لہرایا تھا۔۔جسے وہ کبھی سمجھ ہی نہیں سکی۔جس کے بارے میں اُسے گمان تھا وہ اُسے کبھی نیہں چھوڑے گا۔ مر جاۓ گا مگر خود سے دور نیہں کرے گا۔اس نے ایک پل نیہں لگایا تھا اسے خود سے دور کرنے میں۔میرال کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ دوڑ گیئ تھی۔میں بھی کتنی پاگل ہوں شامیر،،مجھے کیوں لگا آپ مجھے کبھی نہیں چھوڑیں گیں۔مجھے تو یہ بھی گمان تھا کہ آپ مجھ پر یقین کریں گیں۔ کیا کیا تھا آپ نے میرے ساتھ ،،میری ذات کے پرخچے اُڑھا دیے۔۔ مجھے حیوانوں کی طرح نوچا تھا۔پھر بھی میں نے آپ کو معاف کر دیا تھا۔ مگر جو آپ نے مجھے دکھ اپنی جدائی کی صورت میں دیا ہے۔میں کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی نہیں۔۔میرال ہمیشہ کی طرح دل ہی دل میں اس بے حس انسان سے مخاطب تھی۔ جس کی یاد آج بھی اس کے جسم میں لہو بن کر دوڑتی تھی۔ مراد خان کے پکارنے پر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔ وہ مراد خان سے باتیں کر رہی تھی جب ایک شور اٹھا تھا۔ میڈیا بھاگتے ہوئے باہر گیا تھا۔ میرال حیران ہوئی شاید کوئی شوبز کا بہت بڑا ستارہ آیا ہے۔ میرال نے سوچا تھا کیونکہ شوبز سے ریلیٹیڈ بہت سے نامور فنکار بھی مدعو تھے اس پارٹی میں۔ میرال نے سامنے دیکھا۔ میرال کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا۔ سانسیں تھم گئی تھیں جیسے۔ وہ اس کے سامنے ہی تو تھا۔ بالکل ویسا جیسے آج سے دو سال پہلے تھا وہی مغروریت جو اس کی پرسنیلٹی کا حصہ تھی ویسے ہی شاندار بارعب پرسنیلٹی۔ وہ اعتماد سے چلتا ہوا سٹیج تک گیا تھا۔ میرال لمحوں میں پیچھے ایک ٹیبل پر چلی گئی تھی۔ میرال کی چال میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی۔ مراد خان حیران ہوا تھا۔ میرال کو کیا ہوا ہے؟ ابھی تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ اس کے ساتھ کھڑی تھی۔ میرال ایک طرف ٹیبل کے گرد بیٹھی اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا تھا۔ شامیر دُرانی کا بہت شاندار استقبال کیا گیا تھا اسے مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ کیونکہ اس فاؤنڈیشن کو چلا ہی وہ رہا تھا۔ شامیر بہت بڑی اماؤنٹ ہر مہینے مختلف فاؤنڈیشنز کو دیتا تھا۔ شامیر سٹیج سے نیچے آیا تو میڈیا پھر سے لپک کر شامیر دُرانی تک پہنچا تھا۔ اور شامیر سے مختلف سوال پوچھنے لگا۔ سر آپ کی کامیابی کا کیا راز ہے؟ سر آپ کا پوری دنیا میں ایک نام ہے آپ کی کامیابی کا سہرا کسے جاتا ہے۔ شامیر میڈیا کے سوالوں پر مسکرایا تھا۔ میری کامیابی کا سہرا میری ناکامی کو جاتا ہے۔ اک ابال تھا اک جنون تھا میرے جسم میں گرم خون تھا سوچا کچھ نہیں بس نکل گیا اپنی آگ میں خود ہی جل گیا ہر طرف یہاں موت ہے رواں زندگی مجھے لائی ہے کہاں دیکھا آئینہ تو میں ڈر گیا جینے کے لیے کتنا مر گیا شامیر نے یہ اشعار پڑھے تھے۔ میڈیا حیران ہوا۔ سر کیا مطلب؟ ایک رپورٹر نے پوچھا۔ میری باتوں پر نہ جایے۔ان کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ شامیر سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے ایکسکیوز کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ شامیر ایک طرف کھڑا ڈرنک کر رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس سے آ کر مل رہے تھے۔ مگر وہ کسی سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کر رہا تھا۔ پارٹی میں آئے لوگ اسے مغرور اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہے تھے۔ شامیر یہ کیا طریقہ ہے۔ یہاں کتنے ہی بڑے بڑے لوگ آئے ہیں وہ تجھ سے خود آ کر مل کر گئے ہیں تو کسی سے بھی سیدھی طرح نہیں مل رہا۔ بے شک تو بہت بڑا بزنس مین ہے۔ مگر اخلاق بھی کوئی چیز ہوتا ہے۔ ماہر شامیر کے پاس آکر سنجیدہ لہجے میں بولا تھا۔ شامیر اس کی بات کا کوئی بھی جواب دیے بغیر بے زاری سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ شامیر کی نظر سامنے پڑی تو دل کی دھڑکن رُک گئی تھی کائنات کی ہر چیز تھم گیئ تھی جیسے۔کچھ پلوں کے لیے سارے منظر دھندلا گیۓ تھے۔دل بے یقین ہوا تھا۔ آنکھوں کے پردوں پر نظر آنا بند ہو گیا تھا۔ شامیر نے اپنی سرخ آنکھیں مسلی تھی۔ دوسرے ہی پل آنکھوں میں وحشت سی اُبھری تھی۔ ہاں وہی تو تھی اس کی میرال، اس کی جان، اس کی زندگی، اس کا سب کچھ۔ بلیک اور گرے کمبی نیشن کی میکسی میں بالوں کا سائیڈ ڈھیلا جوڑا کیے بے حد حسین لگ رہی تھی۔ پہلے سے کہیں زیادہ بے حد حسین اتنی حسین لگ رہی تھی کہ اتنی حسین وہ اس کی ہمراہی میں بھی کبھی اسے اتنی حسین نہیں لگی تھی۔ شامیر نظریں جھپکنا بھول گیا تھا۔ وہ مراد خان کے ساتھ کھڑی مسکراتے ہوئے باتیں کر رہی تھی۔ شامیر کی آنکھیں لہو چھلکانے لگی تھیں۔ شامیر نے ہاتھ میں پکڑے گلاس پر اپنا دباؤ بڑھایا تھا۔ ماہر نے شامیر کی نظروں کا جھکاؤ محسوس کر لیا تھا۔ ماہر کے لب مسکرائے تھے۔ شامیر پہلی دفعہ کسی لڑکی کو یوں آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ ورنہ تو اس کا لڑکیوں میں انٹرسٹ نہ ہوئے کے برابر تھا۔ کتنی ہی لڑکیاں اس کے آگے پیچھ پھرتی تھیں مگر شامیر کسی کو گھاس نہیں ڈالتا تھا۔ آج بھی کتنی ماڈلز شامیر کے آگے پیچھے پھر رہی تھیں مگر شامیر نے کسی کو ایک نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ ماہر نے بھی شامیر کی پسند کو سراہا تھا۔ شامیر جیسے بندے کا ذوق ایسا ہی ہونا چاہیے سب سے جدا سب سے منفرد۔ ماہر کو بھی وہ لڑکی بے حد حسین لگی تھی سب سے جدا۔ خوبصورت ہے ناں۔۔۔شامیر ماہر کی آواز پر چونکا تھا۔ مراد خان کی نیو سیکرٹری ہے۔ کیا قسمت ہے مراد خان کی اتنی حسین سیکرٹری۔ ماہر دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تھا۔ شامیر نے سرد نظروں سے ماہر کو دیکھا تھا۔ اگر تیری بکواس ختم ہو گئی ہے تو،،تُو یہاں سے جا سکتا ہے۔ شامیر تیز آواز میں بولا تھا۔ شامیر اپنا گلاس کا ؤنٹر ٹیبل پر رکھتا بے چینی سے اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھرنے لگا۔ شامیر کے خون میں ابال اٹھنے لگے تھے وہ بغیر دوپٹے کے یوں بنی سنوری کھڑی تھی اور مراد خان اُسے جِن نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ نظریں ایک مرد کو پہچاننے میں دیر نہیں لگتی۔ ان نظروں میں ڈھیروں میٹھے اور نرم گرم جذبات تھے۔ جو شامیر کو آگ لگا گئے تھے۔ شامیر نے زور دار مکا ٹیبل پر مارا تھا۔ شامیر نے دوبارہ سے ا س طرف دیکھا مراد خان اس کی طرف جھکا اس سے کچھ کہہ رہا تھا۔ جس پر وہ مسکرائی تھی۔ شامیر اپنے بالوں میں اظطرابی کیفیت می ہاتھ پھیرنے لگا۔ شامیر اتنا تو میرال کی جدائی میں نہیں سلگا تھا۔ جتنا وہ یہ سوچ کر دن رات سلگتا تھا کہ وہ کسی کی نہ ہو جائے۔ اس کی جدائی اتنا نہیں تڑپاتی تھی جتنا اسے کسی کے ساتھ سوچ کر وہ تڑپ اٹھتا تھا۔ آج وہ بغیر دوپٹے کے اپنا دلنشیں روپ لیے پارٹی میں کھڑی تھی۔ پارٹی میں ہر کسی کی نظریں اسی پر تھیں۔ شامیر کا پورا بدن ایک اَن دیکھی آگ میں جل رہا تھا۔ کاش وہ اس پر حق رکھتا تو وہ کسی کو اس کا ایک بال بھی دیکھنے نہ دیتا۔ شامیر اضطرابی کیفیت میں اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھیرتے میرال کو سلگتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرال مراد خان کو ایکسکیوز کرتی اپنا فون سننے کے لیے باہر آئی ہی تھی کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا پارکنگ ایریا میں لایا تھا۔ اور اسے جھٹکےسے ایک گاڑی کے بونٹ پر پٹخا تھا۔ میرال کراہتی ہوئی پلٹ کر دیکھا تو اپنے سامنے شامیر دُرانی کو دیکھ کر زمین و آسمان اسے گھومتے ہوئے محسوس ہوئے۔ شامیر دُرانی۔ میرال لڑکھڑائی آواز میں بولی۔ شامیر نے سرخ اور سرد آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔ میرال کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔ ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئی تھیں شامیر نے اس کی کلائی پکڑ کر اس اپنے سامنے کھڑا کیا۔ میرال نے غصے سے اپنی کلائی چھڑوانی چاہی مگر اس کی گرفت کافی مضبوط تھی۔ چھوڑو مجھے۔ میرال شامیر سے نظریں چراتے ہوئے بولی۔ آج بھی اس کی آنکھوں میں دیکھنا میرال کو مشکل ترین لگا تھا۔ نیکسٹ ایپیسوڈ چاہیے تو زیادہ سے زیادہ لائکس دیں اور کمنٹس میں بتائیں ایپیسوڈ کیسی لگی۔نیو ٹوسٹ کیسا لگا۔۔۔۔۔❤❤❤❤ |
| | |
| | Zarpash Khan's post in ❣Bold Romantic... needs approval: "Don't copy paste without my permission Beqarar writer Anam Kazmi Novels Episode 45 رب نہ کرے یہ زندگی کسی کو دغا دے کسی کو رلائے نہ یہ دل کی لگی مولا سب کو دعا دے تیرے پہلو میں جو راتیں گزاریں شبِ مہتاب میں نظریں اتاریں ہم بھی رُکے ہیں اُس موڑ پر کوئی ہم کو صدا دے اپنے آفس میں گلاس ڈور سے وہ باہر نظریں جمائے جانے کن خیالوں میں کھویا تھا۔ سگریٹ ہاتھوں میں دبایا ہوا تھا جو اس کی انگلیوں کو جلا رہا تھ۔ا مگر اسے احساس نہیں ہو رہا تھا۔ آنکھیں بے انتہا سرخ تھیں اس کی آنکھوں کا رنگ ہی اب شائد یہی تھا۔ رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ موسم میں بے حد خنکی تھی۔ حیرت ہے وہ ایک جینز اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ کسی بھی چیز کا احساس ہونے کے لیے انسان کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ مگر وہ تو شاید کب سے مر چکا تھا۔ جسم باقی تھا۔ مگر سانسیں نہ تھیں۔ دل تھا مگر دھڑکن نہ تھی۔ وہ نا جانے کتنی دیر ایسے ہی خیالوں میں کھویا رہتا، اپنے سود و زیاں کا حساب کرتا رہتا۔ فون کی بیل اسے ماضی سے کھینچ کر لائی تھی۔ اس نے نمبر دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ فون اٹھایا۔ کیسے ہو شامیر؟ سپیکر پر آواز گونجی تھی۔ کیسا ہو سکتا ہوں میں آپا؟ شامیر کی آواز میں درد محسوس کر کے فرخندہ نے اپنے آنسوؤں پر قابو پایا تھا۔ شامیر اس ویک اینڈ گھر آ جاؤ آج دو سال ہو گئے ہیں تم نے اپنے گھر میں قدم نہیں رکھا۔ فرخندہ التجائیہ لہجے میں بولی۔ آپا پلیز مجھے مجبور مت کریں۔ میں وہاں نہیں آ سکتا۔ شامیر نے صاف انکار کیا تھا۔ شامیر اس گھر میں بہت سی اچھی یادیں ہیں ہماری۔ فرخندہ سسک پڑی تھی۔ اس گھر میں اچھی یادیں ہیں تو اس گھر میں بُری یادیں بھی ہیں۔ اس گھر میں کسی کی سسکیاں بھی ہیں۔ کسی کی حیوانیت اور درندگی بھی ہے۔ شامیر نے اپنی آفس چئیر پر اپنا ہاتھ بہت زور سے مارا تھا۔ بہت کچھ یاد آیا تھا۔ شامیر نے فون آف کر کے بہت زور سے ٹیبل پر پٹخا تھا۔ اپنی بیٔرڈ پر ہاتھ پھیرتے بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ چین نہ آیا تو سگریٹ پھر سے سلگا کر منہ کو لگایا تھا۔ اور آفس چیئر پر بیٹھتا آنکھوں کو بند کیا تھا مگر وہ پری چہرہ آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تھا۔ شامیر نے بے چینی سے اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوئے انسان نے شامیر کو دیکھ کر افسوس سے سر ہلایا تھا۔ شامیر کتنے سگریٹ پیے گا تو؟ کبھی تو اسے بخش دیا کر۔ماہر نے شامیر کو لتاڑا تھا۔ آج بھی اس اُمید میں سگریٹ پیتا ہوں کبھی تو جلے گی سینے میں اٹکی تصویر اس کی۔ شامیر نے اپنی انگلیوں کے پوروں سے سگریٹ کو بجھاتے ہوئے ماہر کو نظریں اٹھائے دیکھا تھا۔ کیا کام ہے وہ بتاؤ؟ اگر لیکچر دینا ہے تو تم جا سکتے ہو۔ شامیر چیئر سے اٹھتا دوبارہ سے گلاس وال کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈال رکھے تھے۔ شامیر میں تو اس لیے کہہ رہا تھا مجھے تمھاری فکر ہو رہی ہے۔ میں تمھیں اپنے بھائی کی جگہ دیتا ہوں۔ ماہر کے انداز میں شامیر کے لیے بے حد فکر تھی۔ رشتے جوڑنے سے اب مجھے ڈر لگتا ہے یہ خواری کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ تم میرے لیے بس میرے صرف ایک ایمپلاۓ ہو۔ شامیر کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔ ماہر شامیر کے بچپن کا دوست تھا۔۔شامیر نے اس کی تب مدد کی تھی جب اس کا ساتھ سب چھوڑ گئے تھے۔اس کی کالجز یونیورسٹی کی فیسیز دیتا رہا۔۔وہ بھی بنا اس پر کوئ بھی احسان جتاۓ بغیر۔۔اس کی بہن کی شادی کا سارا خرچ اٹھایا۔آج وہ جو کچھ تھا وہ شامیر کی وجہ سے تھا۔۔ایسے میں جب شامیر کو اس کی ضرورت تھی۔وہ اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔فرخندہ نے ماہر سے. التجا کی تھی وہ کبھی شامیر کو تنہا نہ چھوڑے۔اسی لیے وہ شامیر کے سرد رویے کے باوجود اس کے ساتھ تھا ماہر نے شامیر کی بات پر گہری سانس لی تھی۔ شامیر اس ہفتے ایک چیرٹی پارٹی رکھی گئی ہے۔ اس میں تم گیسٹ آف اونر ہو۔ بزنس سے جڑی تمام بڑی بڑی ہستیاں آ رہی ہیں۔ تمام میڈیا اور شوبز سے جڑے ستارے بھی ہوں گی۔ اور تمھارا انٹرویوبھی ہے۔ اس چیرٹی کے لیے بہت بڑی ڈونیشن کی اماؤنٹ تمھاری کمپنی پہلے ہی دے چکی ہے۔ یہ چیرٹی ان بچوں کے علاج کے لیے کی جا رہی ہے جو تھیلیسیمیاکے مریض ہیں۔ماہر نے ڈیٹیل میں شامیر کو بتایا تھا۔ ٹھیک ہے میری طرف سے ڈن ہے میں آجاؤں گا اس پارٹی میں۔ اب تم جا سکتے ہو۔ شامیر نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔ ماہر نے لب بھینچ کر شامیر کی پشت کو دیکھا تھا اور پھر لمبی سانس لیتا شامیر کو اس کے حال پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسا رہا تمھارا انٹرویو؟ طلحہ میرال کے سامنے صوفے پر بیٹھتا ہوا پوچھنے لگا۔ جو ہاتھ میں چائے کا کپ لیے لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ اچھا رہا انٹرویو۔ انفیکٹ مجھے جاب بھی مل چکی ہے مگر بھائی وہ عجیب سا انسان تھا۔ میرال کسی خیال سے چونکتے ہوئے بولی۔ کیا مطلب اس بات کا؟ طلحہ نے ابرو اچکاتے پوچھا۔ میرا مطلب ہے ایسے انسان بہت کم دیکھے ہیں۔ سٹریٹ فاروڈ۔ سیدھے اور سچے۔ جیسے اندر سے ویسا باہر سے۔ میرال کو اس کی آنکھیں یاد آئی تھیں جو بہت شفاف تھیں۔ یہ تو اچھی بات ہے آج کل ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں۔ تو تم جوائن کر رہی ہو پھر؟ طلحہ نے میرال کو دیکھا جو کسی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ پتہ نہیں بھائی۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔میرال نے بے دلی سے جواب دیا تھا۔دیکھو میرال تم دو سال سے ایسے ہی گھر بیٹھی ہو۔ تمھیں آگے بڑھنا چاہیے فارغ رہو گی۔ کبھی بھی تم اپنے ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا پاؤ گی۔ تمھارا مصروف رہنا ضروری ہے۔طلحہ نے اسے سمجھایا تھا۔ میں کہیں بھی چلی جاؤں میرا ماضی میرا پیچھا نہیں چھوڑنے والا۔ میرال تلخی سے بولی تھی۔ تب تک نہیں چھوڑے گا تمھارا پیچھا جب تک تم خود نہیں چھڑواؤ گی۔ تم یہ جاب کر رہی ہو۔ خان گروپ آف انڈسٹریز بہت نامور کمپنی ہے اور مراد خان بہت اچھا انسان ہے میری ایک دو بزنس پارٹیز میں ملاقات ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے تمھارے لیے یہ بہت بڑی اپورچونیٹی ہے۔ طلحہ کے سمجھانے پر میرال نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد خان کچن میں کافی پھینٹتے ہوئے کچھ گنگنا بھی رہا تھا۔ کافی خوشگوار موڈ لگ رہا تھا۔ کیا بات ہے آج موڈ بہت اچھا ہے میرے بیٹے کا۔۔ سکندر خان کچن میں مراد خان کو کافی بناتے دیکھ کر بے حد حیران ہوئے تھے۔ اسلامُ علیکم بابا۔ آپ کب آئے؟ مراد خان کافی چھوڑ کر سکندر کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ ابھی جب تم گنگنا رہے تھے۔ سکندر خان ابھی بھی حیرت کا شکار تھے۔ مراد خان آج بہت عرصے بعد کچن میں آیا تھا اور بہت عرصے بعد اتنا خوشگوار موڈ دیکھا تھا۔ ورنہ وہ تو صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کرتا تھا۔ وہ ظاہر نیہں کرتا تھا۔مگر سکندر خان جانتے تھے اپنے دل میں وہ کتنا درد چھپائے ہوئے ہے۔ مونا،، مراد خان کی بیوی جو اسے اپنے کسی پرانے عاشق کے لیے چھوڑ کر چلی گئی۔ مراد خان کو کتنا ہی عرصہ دھوکہ دیتی رہی۔ مراد خان کو جب پتہ چلا تو اس نے مونا کو طلاق دے دی تھی بلکہ حق مہر میں اپنی کتنی ہی جائیداد بھی اس کو دے دی تھی۔ مراد خان بتاتا نہیں تھا۔ مگر مونا کے دھوکے نے اسے اندر تک توڑ کر رکھ دیا تھا۔ لیکن آج اتنے عرصے بعد مراد خان بہت اچھے موڈ میں تھا۔ مراد خان نے کافی کا کپ سکندر خان کی طرف بڑھایا اور اپنا کافی کا کب تھام کر وہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھا تھا۔بابا مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ کئی چہروں کی خوبصورتی ہمیں اتنی متاثر نہیں کرتی جتنی ان کی معصومیت، سچائی اور پاکیزگی متاثر کرتی ہے۔ سکندر خان مراد خان کی بات پر گہرا مسکرئے تھے۔ کیا بات ہے؟ کس چہرے نے متاثر کر دیا میرے بیٹے کو؟ سکندر خان کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔ مراد خان کے منہ سے آج سالوں بعد کسی لڑکی کا ذکر سنا تھا۔ بابا،، وہ چہرہ بہت خوبصورت تھا اتنا خوبصورت کہ نظر اس پر ٹھہر جائے۔ مگر اس کی آنکھیں بہت شفاف تھیں ان میں ایک درد بھی تھا۔ مراد خان خیالوں میں کھویا بول رہا تھا۔ سکندر خان،، مراد خان کی بات پر سیدھے ہوئے تھے۔ کیا کہہ رہے ہوتم؟ بابا میں نے آج اس کو دیکھا اور پل میں اس چہرے کا اسیر ہو گیا۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وہ صرف میرے لیے بنی ہے اور میں اس کے لیے،،، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے اور اس کے بیچ بہت گہرا رشتہ ہو۔ شاید درد کا رشتہ ہے جو مجھے اس سے جوڑ رہا ہے۔ پتہ نہیں کیا ہے؟ مگر میں اسے بھول نہیں پا رہا۔ مراد خان کی آنکھوں میں جذبات کا طوفان ہچکولے لے رہا تھا۔ مراد تم نے کہا تھا کہ تم مونا کے بعد کبھی کسی پر یقین نہیں کرو گے۔ سکندر خان اسے کُرید رہے تھے۔ وہ دل ہی دل میں مراد کے لیے بہت خوش ہوئے تھے۔ آج اتنے سالوں بعد مراد کے چہرے پر خوشی دیکھی تھی۔ مگر وہ نہیں چاہتے تھے یہ وقتی ابال ہو۔ مراد خان مونا کے کیے کی سزا کسی اور کو دے۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے مراد کے دل میں محبت کی صرف کونپل پھوٹی ہے۔ یا پھر مراد کا دل یقین بھی کرتا ہے کیونکہ جس رشتے میں یقین نہ ہو وہ ریت کے گروندے بنانے کے مترادف ہے۔ مراد خان ہنسا تھا۔سکندر خان کی بات سن کر۔ بابا اسے دیکھ کر تو پوری دنیا پر یقین کرنے کو دل کرتا ہے۔ وہ بنی ہی یقین کرنے کے لیے ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے اس کے حسن کی چند لفظوں میں تعریف کروں تو وہ الفاظ ہیں۔ یقین، وفا، شرم،پاگیزگی، اینجل یہ الفاظ بنے ہی اس کے لیے ہیں۔ مراد خان کی آنکھوں کے پردے پر میرال کا چہرہ لہرایا تھا۔ مراد خان کے عنابی لب بے اختیار مسکرا اٹھے تھے۔ لیکن مراد تم آچھی طرح سوچ لو کیونکہ میں نہیں چاہتا تم ہرٹ ہو اور تمہاری وجہ سے کوئی اور ہرٹ ہو۔ بابا میں جانتا ہوں آپ کیا کہنا چا رہے ہیں۔۔آپ کو کیا لگتا ہے۔میں مونا کے کیے کی سزا کسی اور کو دوں گا۔بابا کمزرف ہوتے ہیں وہ مرد جو کسی کی غلطی کی سزا کسی اور سے لیتے ہیں اور وہ بھی ایک عورت سے انفیکٹ میرے نزدیک وہ مرد ہی نہیں ہوتے۔ یا وہ اپنے پیار پر یقین نہیں کرتے۔ یقین ہی تو پیار کی بنیاد ہے۔ جہاں تک مونا کی بات ہے میں نے مونا کے کیے کی سزا اسے نہیں دی تو کسی اور کو کیا دوں گا۔۔مراد خان سنجیدگی سے بولا تھا۔۔سکندر خان کو اپنے بیٹے پر فخر ہوا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِس میرال آپ ریڈی ہیں۔ مراد خان نے میرال کے کیبن میں آ کر میرال کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جو بلو کلر کے سمپل سے فراک میں ملبوس تھی۔ جس کے گلے پر چھوٹے چھوٹے شیشے لگے ہوئے تھے۔ میک اَپ میں صرف لِپ سٹک لگائی ہوئی تھی۔ جی سر میں ریڈی ہوں۔ میرال اپنی چیئر سے کھڑی ہوتی بولی تھی۔آر یو شیور! آپ ریڈی ہیں؟ مراد خان نے میرال کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے تو یہی لگتا ہے ۔میرال کے چہرے پر غصہ نمودار ہوا تھا مراد خان کے یوں دیکھنے پر۔ مراد خان قہقہہ لگا کر ہنس پڑا تھا۔ میرال کے یوں چڑنے پر۔ مِس میرال،، نو ڈاؤٹ،، آپ بے حد حسین لگ رہی ہیں، بے حد حسین۔ آپ اس حلیے میں بھی پارٹی میں چلی جائیں گی۔ تو یقینًا سب کی نظریں صرف آپ پر ہوں گی۔ مگر یہ ڈریس آپ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ آج بہت حسین لگیں۔ آپ وہ ڈریس پہنیں جو میں آپ کے لیے لایا ہوں۔ لیکن سر میں کس طرح۔۔۔ میرال ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔ پلیز۔۔ مِس میرال میں آپ سے ریکویسٹ کرتا ہوں۔ مراد خان التجائیہ لہجے میں بولا تھا۔ مراد خان نے میرال کو وہ ڈریس تھمایا تھا۔ جو بلیک اور گرے کمبی نیشن میں تھا۔بے حد سٹائلش لانگ میکسی تھی ۔جو بے حد خوبصورت اور ڈیلیکیٹ تھی اس پر لگے بیٹس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ پریٹی!میرال کے منہ سے وہ میکسی دیکھ کر نکلا تھا۔ تو آپ پہنیں گی ناں۔ مراد خان نے بہت آس سے پوچھا۔ میرال نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ مراد خان کا چہرہ خوشی سے چمکا تھا۔ مِس میرال،، یہ میکسی وِد آؤٹ دوپٹہ ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں ارینج کر دیتا ہوں۔ جیسے آپ کو کمفرٹ لگے۔ یہ آپ کی خود کی چوائس ہے۔ مراد خان نے میرال کو میکسی پکڑاتے ہوئے کہا۔ میرال کے ہاتھ کپکپائے تھے ایک پل کے لیے۔ کانوں میں کسی کی آواز گونجی تھی۔ آئیندہ تم مجھے بغیر دوپٹے کے نظر نہ آؤ۔۔ میرال کا چہرہ پل میں دھواں ہوا تھا۔ آنکھوں میں آنسو جھلملائے تھے۔ مراد خان میرال کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔ دوسرے ہی پل میرال میکسی پکڑے تیزی سے ریسٹ روم چلی گئی۔ میرال آئینے کے آگے کھڑی تھی آنسو آنکھوں سے رواں تھے۔ کیوں شامیر میں آج بھی آپ کو بھول نہیں پا رہی۔میرال نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا دوپٹہ سر پر اوڑھا تھا۔ اور خود کو دیکھتے ہوے بے تحاشا رو رہی تھی۔اس نے دوپٹہ سر پر لینا چھوڑ دیا تھا۔کہیں خود کو دیکھ کر شامیر کی یاد نہ آ جاۓ۔مگر کسی کی یاد آنے کے لیے کوئ وجہ نیہں چاہیے ہوتی۔بس وہ تو چپکے سے دل میں چلی آتی ہے۔ میں دعا کرتی ہوں شامیر میرا اور آپ کا سامنا کبھی نہ ہو۔ کیونکہ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں نفرت کرتی ہوں۔ آپ نے ایک پل نہیں لگایا مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ میں آپ کے بغیر کیسے جیوں گی۔ میرال اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرال تیار ہو کر آئی تو مراد خان جیسے سانس لینا بھول گیا تھا۔ میکسی اس کے نازک بدن پر بے انتہا دلکش لگ رہی تھی۔ میرال نے میسی سا سائڈ ڈھیلا جوڑا بنایا ہواتھا۔ آنکھوں پر گرے سموکی میک اَپ کیا تھا۔ میرال اتنی حسین لگ رہی تھی کہ مراد خان کی سانسیں اٹک گئی تھیں۔ لمحوں میں دل بے ایمان ہوا۔ دل پہلو میں سر پٹختے ہوئے اس کو چھونے کو بے قرار ہوا تھا۔ مراد خان سحر زدہ سا ہوتا ہوا دھیرے دھیرے میرال کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ اس سے پہلے مراد خان میرال کے قریب جا کر کوئی گستاخی کرتا۔ موبائل فون کی بیل پر چونکا تھا۔ لمحوں میں وہ جادوئی اثر سے باہر آیا تھا۔ مراد خان جلدی سے آفس سے باہر نکلا تھا۔ اور خود کو ڈپنے لگا۔کہ آج اس سے کچھ ایسا ویسا ہو جاتا تو اسے کتنی شرمندگی ہوتی۔ وہ میرال کو اس کی مرضی کے بغیر چھونا نہیں چاہتا تھا۔ بہت جلد میرال آپ کے تمام حقوق میں اپنے نام لکھوا لوں گا بہت جلد۔ کیونکہ آپ سے دور رہنا اب بہت مشکل ہو گیا ہے۔ مراد خان کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ بکھری تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مراد خان کے ساتھ پارٹی میں پہنچی۔ اس سے پہلے میڈیا ان تک آتا۔ میرال دو قدم پیچھے کو ہوئی تھی۔ مراد خان نے میرال کی ہچکچاہٹ اور گریز محسوس کر لیا تھا۔ مِس میرال آپ اگر کمفرٹیبل نہیں ہیں۔ میڈیا کے سامنے تو آپ ایک طرف بیٹھ سکتی ہیں۔میرال ایک طرف ہو گئی تھی وہ واقعی میں میڈیا کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی۔ مراد خان میڈیا سے جلد ہی ایکسکوز کرتے اس کے پاس آگیا تھا۔ مِس میرال آپ ٹھیک ہیں؟ آپ ایزی ہیں۔ مراد میرال کے پاس آ کر اس سے پوچھنے لگا۔ جو ایک طرف کھڑی تھی۔ جی سر میں بالکل ٹھیک ہوں۔وہ حیرت سے اس انسان کو دیکھ رہی تھی جو دنیا سے الگ تھا۔کتنی عزت تھی اس کی نظروں میں اس کے لئے۔۔کتنی فکر تھی۔ کتنا احترم کرتا تھا اس کی ہر بات کا۔۔اس ایک مہینے میں وہ مراد خان کو اچھی طرح جان چکی تھی۔ وہ تو اسے پہلی نظر میں ہی پہچان چکی تھی۔ ٹھیک کہتے ہیں کسی کو پہچاننے کے لئے ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اور کسی کے ساتھ برسوں رہو اپ اُسے پہچان نہیں سکتے۔۔میرال کی آنکھوں میں کسی کا عکس لہرایا تھا۔۔جسے وہ کبھی سمجھ ہی نہیں سکی۔جس کے بارے میں اُسے گمان تھا وہ اُسے کبھی نیہں چھوڑے گا۔ مر جاۓ گا مگر خود سے دور نیہں کرے گا۔اس نے ایک پل نیہں لگایا تھا اسے خود سے دور کرنے میں۔میرال کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ دوڑ گیئ تھی۔میں بھی کتنی پاگل ہوں شامیر،،مجھے کیوں لگا آپ مجھے کبھی نہیں چھوڑیں گیں۔مجھے تو یہ بھی گمان تھا کہ آپ مجھ پر یقین کریں گیں۔ کیا کیا تھا آپ نے میرے ساتھ ،،میری ذات کے پرخچے اُڑھا دیے۔۔ مجھے حیوانوں کی طرح نوچا تھا۔پھر بھی میں نے آپ کو معاف کر دیا تھا۔ مگر جو آپ نے مجھے دکھ اپنی جدائی کی صورت میں دیا ہے۔میں کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی نہیں۔۔میرال ہمیشہ کی طرح دل ہی دل میں اس بے حس انسان سے مخاطب تھی۔ جس کی یاد آج بھی اس کے جسم میں لہو بن کر دوڑتی تھی۔ مراد خان کے پکارنے پر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔ وہ مراد خان سے باتیں کر رہی تھی جب ایک شور اٹھا تھا۔ میڈیا بھاگتے ہوئے باہر گیا تھا۔ میرال حیران ہوئی شاید کوئی شوبز کا بہت بڑا ستارہ آیا ہے۔ میرال نے سوچا تھا کیونکہ شوبز سے ریلیٹیڈ بہت سے نامور فنکار بھی مدعو تھے اس پارٹی میں۔ میرال نے سامنے دیکھا۔ میرال کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا۔ سانسیں تھم گئی تھیں جیسے۔ وہ اس کے سامنے ہی تو تھا۔ بالکل ویسا جیسے آج سے دو سال پہلے تھا وہی مغروریت جو اس کی پرسنیلٹی کا حصہ تھی ویسے ہی شاندار بارعب پرسنیلٹی۔ وہ اعتماد سے چلتا ہوا سٹیج تک گیا تھا۔ میرال لمحوں میں پیچھے ایک ٹیبل پر چلی گئی تھی۔ میرال کی چال میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی۔ مراد خان حیران ہوا تھا۔ میرال کو کیا ہوا ہے؟ ابھی تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ اس کے ساتھ کھڑی تھی۔ میرال ایک طرف ٹیبل کے گرد بیٹھی اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا تھا۔ شامیر دُرانی کا بہت شاندار استقبال کیا گیا تھا اسے مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ کیونکہ اس فاؤنڈیشن کو چلا ہی وہ رہا تھا۔ شامیر بہت بڑی اماؤنٹ ہر مہینے مختلف فاؤنڈیشنز کو دیتا تھا۔ شامیر سٹیج سے نیچے آیا تو میڈیا پھر سے لپک کر شامیر دُرانی تک پہنچا تھا۔ اور شامیر سے مختلف سوال پوچھنے لگا۔ سر آپ کی کامیابی کا کیا راز ہے؟ سر آپ کا پوری دنیا میں ایک نام ہے آپ کی کامیابی کا سہرا کسے جاتا ہے۔ شامیر میڈیا کے سوالوں پر مسکرایا تھا۔ میری کامیابی کا سہرا میری ناکامی کو جاتا ہے۔ اک ابال تھا اک جنون تھا میرے جسم میں گرم خون تھا سوچا کچھ نہیں بس نکل گیا اپنی آگ میں خود ہی جل گیا ہر طرف یہاں موت ہے رواں زندگی مجھے لائی ہے کہاں دیکھا آئینہ تو میں ڈر گیا جینے کے لیے کتنا مر گیا شامیر نے یہ اشعار پڑھے تھے۔ میڈیا حیران ہوا۔ سر کیا مطلب؟ ایک رپورٹر نے پوچھا۔ میری باتوں پر نہ جایے۔ان کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ شامیر سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے ایکسکیوز کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ شامیر ایک طرف کھڑا ڈرنک کر رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس سے آ کر مل رہے تھے۔ مگر وہ کسی سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کر رہا تھا۔ پارٹی میں آئے لوگ اسے مغرور اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہے تھے۔ شامیر یہ کیا طریقہ ہے۔ یہاں کتنے ہی بڑے بڑے لوگ آئے ہیں وہ تجھ سے خود آ کر مل کر گئے ہیں تو کسی سے بھی سیدھی طرح نہیں مل رہا۔ بے شک تو بہت بڑا بزنس مین ہے۔ مگر اخلاق بھی کوئی چیز ہوتا ہے۔ ماہر شامیر کے پاس آکر سنجیدہ لہجے میں بولا تھا۔ شامیر اس کی بات کا کوئی بھی جواب دیے بغیر بے زاری سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ شامیر کی نظر سامنے پڑی تو دل کی دھڑکن رُک گئی تھی کائنات کی ہر چیز تھم گیئ تھی جیسے۔کچھ پلوں کے لیے سارے منظر دھندلا گیۓ تھے۔دل بے یقین ہوا تھا۔ آنکھوں کے پردوں پر نظر آنا بند ہو گیا تھا۔ شامیر نے اپنی سرخ آنکھیں مسلی تھی۔ دوسرے ہی پل آنکھوں میں وحشت سی اُبھری تھی۔ ہاں وہی تو تھی اس کی میرال، اس کی جان، اس کی زندگی، اس کا سب کچھ۔ بلیک اور گرے کمبی نیشن کی میکسی میں بالوں کا سائیڈ ڈھیلا جوڑا کیے بے حد حسین لگ رہی تھی۔ پہلے سے کہیں زیادہ بے حد حسین اتنی حسین لگ رہی تھی کہ اتنی حسین وہ اس کی ہمراہی میں بھی کبھی اسے اتنی حسین نہیں لگی تھی۔ شامیر نظریں جھپکنا بھول گیا تھا۔ وہ مراد خان کے ساتھ کھڑی مسکراتے ہوئے باتیں کر رہی تھی۔ شامیر کی آنکھیں لہو چھلکانے لگی تھیں۔ شامیر نے ہاتھ میں پکڑے گلاس پر اپنا دباؤ بڑھایا تھا۔ ماہر نے شامیر کی نظروں کا جھکاؤ محسوس کر لیا تھا۔ ماہر کے لب مسکرائے تھے۔ شامیر پہلی دفعہ کسی لڑکی کو یوں آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ ورنہ تو اس کا لڑکیوں میں انٹرسٹ نہ ہوئے کے برابر تھا۔ کتنی ہی لڑکیاں اس کے آگے پیچھ پھرتی تھیں مگر شامیر کسی کو گھاس نہیں ڈالتا تھا۔ آج بھی کتنی ماڈلز شامیر کے آگے پیچھے پھر رہی تھیں مگر شامیر نے کسی کو ایک نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ ماہر نے بھی شامیر کی پسند کو سراہا تھا۔ شامیر جیسے بندے کا ذوق ایسا ہی ہونا چاہیے سب سے جدا سب سے منفرد۔ ماہر کو بھی وہ لڑکی بے حد حسین لگی تھی سب سے جدا۔ خوبصورت ہے ناں۔۔۔شامیر ماہر کی آواز پر چونکا تھا۔ مراد خان کی نیو سیکرٹری ہے۔ کیا قسمت ہے مراد خان کی اتنی حسین سیکرٹری۔ ماہر دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تھا۔ شامیر نے سرد نظروں سے ماہر کو دیکھا تھا۔ اگر تیری بکواس ختم ہو گئی ہے تو،،تُو یہاں سے جا سکتا ہے۔ شامیر تیز آواز میں بولا تھا۔ شامیر اپنا گلاس کا ؤنٹر ٹیبل پر رکھتا بے چینی سے اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھرنے لگا۔ شامیر کے خون میں ابال اٹھنے لگے تھے وہ بغیر دوپٹے کے یوں بنی سنوری کھڑی تھی اور مراد خان اُسے جِن نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ نظریں ایک مرد کو پہچاننے میں دیر نہیں لگتی۔ ان نظروں میں ڈھیروں میٹھے اور نرم گرم جذبات تھے۔ جو شامیر کو آگ لگا گئے تھے۔ شامیر نے زور دار مکا ٹیبل پر مارا تھا۔ شامیر نے دوبارہ سے ا س طرف دیکھا مراد خان اس کی طرف جھکا اس سے کچھ کہہ رہا تھا۔ جس پر وہ مسکرائی تھی۔ شامیر اپنے بالوں میں اظطرابی کیفیت می ہاتھ پھیرنے لگا۔ شامیر اتنا تو میرال کی جدائی میں نہیں سلگا تھا۔ جتنا وہ یہ سوچ کر دن رات سلگتا تھا کہ وہ کسی کی نہ ہو جائے۔ اس کی جدائی اتنا نہیں تڑپاتی تھی جتنا اسے کسی کے ساتھ سوچ کر وہ تڑپ اٹھتا تھا۔ آج وہ بغیر دوپٹے کے اپنا دلنشیں روپ لیے پارٹی میں کھڑی تھی۔ پارٹی میں ہر کسی کی نظریں اسی پر تھیں۔ شامیر کا پورا بدن ایک اَن دیکھی آگ میں جل رہا تھا۔ کاش وہ اس پر حق رکھتا تو وہ کسی کو اس کا ایک بال بھی دیکھنے نہ دیتا۔ شامیر اضطرابی کیفیت میں اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھیرتے میرال کو سلگتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرال مراد خان کو ایکسکیوز کرتی اپنا فون سننے کے لیے باہر آئی ہی تھی کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا پارکنگ ایریا میں لایا تھا۔ اور اسے جھٹکےسے ایک گاڑی کے بونٹ پر پٹخا تھا۔ میرال کراہتی ہوئی پلٹ کر دیکھا تو اپنے سامنے شامیر دُرانی کو دیکھ کر زمین و آسمان اسے گھومتے ہوئے محسوس ہوئے۔ شامیر دُرانی۔ میرال لڑکھڑائی آواز میں بولی۔ شامیر نے سرخ اور سرد آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔ میرال کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔ ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئی تھیں شامیر نے اس کی کلائی پکڑ کر اس اپنے سامنے کھڑا کیا۔ میرال نے غصے سے اپنی کلائی چھڑوانی چاہی مگر اس کی گرفت کافی مضبوط تھی۔ چھوڑو مجھے۔ میرال شامیر سے نظریں چراتے ہوئے بولی۔ آج بھی اس کی آنکھوں میں دیکھنا میرال کو مشکل ترین لگا تھا۔ نیکسٹ ایپیسوڈ چاہیے تو زیادہ سے زیادہ لائکس دیں اور کمنٹس میں بتائیں ایپیسوڈ کیسی لگی۔نیو ٹوسٹ کیسا لگا۔۔۔۔۔". | | | | Zarpash Khan | October 26 at 12:08 AM |
| | Don't copy paste without my permission Beqarar writer Anam Kazmi Novels Episode 45 رب نہ کرے یہ زندگی کسی کو دغا دے کسی کو رلائے نہ یہ دل کی لگی مولا سب کو دعا دے تیرے پہلو میں جو راتیں گزاریں شبِ مہتاب میں نظریں اتاریں ہم بھی رُکے ہیں اُس موڑ پر کوئی ہم کو صدا دے اپنے آفس میں گلاس ڈور سے وہ باہر نظریں جمائے جانے کن خیالوں میں کھویا تھا۔ سگریٹ ہاتھوں میں دبایا ہوا تھا جو اس کی انگلیوں کو جلا رہا تھ۔ا مگر اسے احساس نہیں ہو رہا تھا۔ آنکھیں بے انتہا سرخ تھیں اس کی آنکھوں کا رنگ ہی اب شائد یہی تھا۔ رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ موسم میں بے حد خنکی تھی۔ حیرت ہے وہ ایک جینز اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ کسی بھی چیز کا احساس ہونے کے لیے انسان کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ مگر وہ تو شاید کب سے مر چکا تھا۔ جسم باقی تھا۔ مگر سانسیں نہ تھیں۔ دل تھا مگر دھڑکن نہ تھی۔ وہ نا جانے کتنی دیر ایسے ہی خیالوں میں کھویا رہتا، اپنے سود و زیاں کا حساب کرتا رہتا۔ فون کی بیل اسے ماضی سے کھینچ کر لائی تھی۔ اس نے نمبر دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ فون اٹھایا۔ کیسے ہو شامیر؟ سپیکر پر آواز گونجی تھی۔ کیسا ہو سکتا ہوں میں آپا؟ شامیر کی آواز میں درد محسوس کر کے فرخندہ نے اپنے آنسوؤں پر قابو پایا تھا۔ شامیر اس ویک اینڈ گھر آ جاؤ آج دو سال ہو گئے ہیں تم نے اپنے گھر میں قدم نہیں رکھا۔ فرخندہ التجائیہ لہجے میں بولی۔ آپا پلیز مجھے مجبور مت کریں۔ میں وہاں نہیں آ سکتا۔ شامیر نے صاف انکار کیا تھا۔ شامیر اس گھر میں بہت سی اچھی یادیں ہیں ہماری۔ فرخندہ سسک پڑی تھی۔ اس گھر میں اچھی یادیں ہیں تو اس گھر میں بُری یادیں بھی ہیں۔ اس گھر میں کسی کی سسکیاں بھی ہیں۔ کسی کی حیوانیت اور درندگی بھی ہے۔ شامیر نے اپنی آفس چئیر پر اپنا ہاتھ بہت زور سے مارا تھا۔ بہت کچھ یاد آیا تھا۔ شامیر نے فون آف کر کے بہت زور سے ٹیبل پر پٹخا تھا۔ اپنی بیٔرڈ پر ہاتھ پھیرتے بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ چین نہ آیا تو سگریٹ پھر سے سلگا کر منہ کو لگایا تھا۔ اور آفس چیئر پر بیٹھتا آنکھوں کو بند کیا تھا مگر وہ پری چہرہ آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تھا۔ شامیر نے بے چینی سے اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوئے انسان نے شامیر کو دیکھ کر افسوس سے سر ہلایا تھا۔ شامیر کتنے سگریٹ پیے گا تو؟ کبھی تو اسے بخش دیا کر۔ماہر نے شامیر کو لتاڑا تھا۔ آج بھی اس اُمید میں سگریٹ پیتا ہوں کبھی تو جلے گی سینے میں اٹکی تصویر اس کی۔ شامیر نے اپنی انگلیوں کے پوروں سے سگریٹ کو بجھاتے ہوئے ماہر کو نظریں اٹھائے دیکھا تھا۔ کیا کام ہے وہ بتاؤ؟ اگر لیکچر دینا ہے تو تم جا سکتے ہو۔ شامیر چیئر سے اٹھتا دوبارہ سے گلاس وال کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈال رکھے تھے۔ شامیر میں تو اس لیے کہہ رہا تھا مجھے تمھاری فکر ہو رہی ہے۔ میں تمھیں اپنے بھائی کی جگہ دیتا ہوں۔ ماہر کے انداز میں شامیر کے لیے بے حد فکر تھی۔ رشتے جوڑنے سے اب مجھے ڈر لگتا ہے یہ خواری کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ تم میرے لیے بس میرے صرف ایک ایمپلاۓ ہو۔ شامیر کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔ ماہر شامیر کے بچپن کا دوست تھا۔۔شامیر نے اس کی تب مدد کی تھی جب اس کا ساتھ سب چھوڑ گئے تھے۔اس کی کالجز یونیورسٹی کی فیسیز دیتا رہا۔۔وہ بھی بنا اس پر کوئ بھی احسان جتاۓ بغیر۔۔اس کی بہن کی شادی کا سارا خرچ اٹھایا۔آج وہ جو کچھ تھا وہ شامیر کی وجہ سے تھا۔۔ایسے میں جب شامیر کو اس کی ضرورت تھی۔وہ اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔فرخندہ نے ماہر سے. التجا کی تھی وہ کبھی شامیر کو تنہا نہ چھوڑے۔اسی لیے وہ شامیر کے سرد رویے کے باوجود اس کے ساتھ تھا ماہر نے شامیر کی بات پر گہری سانس لی تھی۔ شامیر اس ہفتے ایک چیرٹی پارٹی رکھی گئی ہے۔ اس میں تم گیسٹ آف اونر ہو۔ بزنس سے جڑی تمام بڑی بڑی ہستیاں آ رہی ہیں۔ تمام میڈیا اور شوبز سے جڑے ستارے بھی ہوں گی۔ اور تمھارا انٹرویوبھی ہے۔ اس چیرٹی کے لیے بہت بڑی ڈونیشن کی اماؤنٹ تمھاری کمپنی پہلے ہی دے چکی ہے۔ یہ چیرٹی ان بچوں کے علاج کے لیے کی جا رہی ہے جو تھیلیسیمیاکے مریض ہیں۔ماہر نے ڈیٹیل میں شامیر کو بتایا تھا۔ ٹھیک ہے میری طرف سے ڈن ہے میں آجاؤں گا اس پارٹی میں۔ اب تم جا سکتے ہو۔ شامیر نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔ ماہر نے لب بھینچ کر شامیر کی پشت کو دیکھا تھا اور پھر لمبی سانس لیتا شامیر کو اس کے حال پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسا رہا تمھارا انٹرویو؟ طلحہ میرال کے سامنے صوفے پر بیٹھتا ہوا پوچھنے لگا۔ جو ہاتھ میں چائے کا کپ لیے لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ اچھا رہا انٹرویو۔ انفیکٹ مجھے جاب بھی مل چکی ہے مگر بھائی وہ عجیب سا انسان تھا۔ میرال کسی خیال سے چونکتے ہوئے بولی۔ کیا مطلب اس بات کا؟ طلحہ نے ابرو اچکاتے پوچھا۔ میرا مطلب ہے ایسے انسان بہت کم دیکھے ہیں۔ سٹریٹ فاروڈ۔ سیدھے اور سچے۔ جیسے اندر سے ویسا باہر سے۔ میرال کو اس کی آنکھیں یاد آئی تھیں جو بہت شفاف تھیں۔ یہ تو اچھی بات ہے آج کل ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں۔ تو تم جوائن کر رہی ہو پھر؟ طلحہ نے میرال کو دیکھا جو کسی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ پتہ نہیں بھائی۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔میرال نے بے دلی سے جواب دیا تھا۔دیکھو میرال تم دو سال سے ایسے ہی گھر بیٹھی ہو۔ تمھیں آگے بڑھنا چاہیے فارغ رہو گی۔ کبھی بھی تم اپنے ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا پاؤ گی۔ تمھارا مصروف رہنا ضروری ہے۔طلحہ نے اسے سمجھایا تھا۔ میں کہیں بھی چلی جاؤں میرا ماضی میرا پیچھا نہیں چھوڑنے والا۔ میرال تلخی سے بولی تھی۔ تب تک نہیں چھوڑے گا تمھارا پیچھا جب تک تم خود نہیں چھڑواؤ گی۔ تم یہ جاب کر رہی ہو۔ خان گروپ آف انڈسٹریز بہت نامور کمپنی ہے اور مراد خان بہت اچھا انسان ہے میری ایک دو بزنس پارٹیز میں ملاقات ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے تمھارے لیے یہ بہت بڑی اپورچونیٹی ہے۔ طلحہ کے سمجھانے پر میرال نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد خان کچن میں کافی پھینٹتے ہوئے کچھ گنگنا بھی رہا تھا۔ کافی خوشگوار موڈ لگ رہا تھا۔ کیا بات ہے آج موڈ بہت اچھا ہے میرے بیٹے کا۔۔ سکندر خان کچن میں مراد خان کو کافی بناتے دیکھ کر بے حد حیران ہوئے تھے۔ اسلامُ علیکم بابا۔ آپ کب آئے؟ مراد خان کافی چھوڑ کر سکندر کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ ابھی جب تم گنگنا رہے تھے۔ سکندر خان ابھی بھی حیرت کا شکار تھے۔ مراد خان آج بہت عرصے بعد کچن میں آیا تھا اور بہت عرصے بعد اتنا خوشگوار موڈ دیکھا تھا۔ ورنہ وہ تو صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کرتا تھا۔ وہ ظاہر نیہں کرتا تھا۔مگر سکندر خان جانتے تھے اپنے دل میں وہ کتنا درد چھپائے ہوئے ہے۔ مونا،، مراد خان کی بیوی جو اسے اپنے کسی پرانے عاشق کے لیے چھوڑ کر چلی گئی۔ مراد خان کو کتنا ہی عرصہ دھوکہ دیتی رہی۔ مراد خان کو جب پتہ چلا تو اس نے مونا کو طلاق دے دی تھی بلکہ حق مہر میں اپنی کتنی ہی جائیداد بھی اس کو دے دی تھی۔ مراد خان بتاتا نہیں تھا۔ مگر مونا کے دھوکے نے اسے اندر تک توڑ کر رکھ دیا تھا۔ لیکن آج اتنے عرصے بعد مراد خان بہت اچھے موڈ میں تھا۔ مراد خان نے کافی کا کپ سکندر خان کی طرف بڑھایا اور اپنا کافی کا کب تھام کر وہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھا تھا۔بابا مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ کئی چہروں کی خوبصورتی ہمیں اتنی متاثر نہیں کرتی جتنی ان کی معصومیت، سچائی اور پاکیزگی متاثر کرتی ہے۔ سکندر خان مراد خان کی بات پر گہرا مسکرئے تھے۔ کیا بات ہے؟ کس چہرے نے متاثر کر دیا میرے بیٹے کو؟ سکندر خان کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔ مراد خان کے منہ سے آج سالوں بعد کسی لڑکی کا ذکر سنا تھا۔ بابا،، وہ چہرہ بہت خوبصورت تھا اتنا خوبصورت کہ نظر اس پر ٹھہر جائے۔ مگر اس کی آنکھیں بہت شفاف تھیں ان میں ایک درد بھی تھا۔ مراد خان خیالوں میں کھویا بول رہا تھا۔ سکندر خان،، مراد خان کی بات پر سیدھے ہوئے تھے۔ کیا کہہ رہے ہوتم؟ بابا میں نے آج اس کو دیکھا اور پل میں اس چہرے کا اسیر ہو گیا۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وہ صرف میرے لیے بنی ہے اور میں اس کے لیے،،، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے اور اس کے بیچ بہت گہرا رشتہ ہو۔ شاید درد کا رشتہ ہے جو مجھے اس سے جوڑ رہا ہے۔ پتہ نہیں کیا ہے؟ مگر میں اسے بھول نہیں پا رہا۔ مراد خان کی آنکھوں میں جذبات کا طوفان ہچکولے لے رہا تھا۔ مراد تم نے کہا تھا کہ تم مونا کے بعد کبھی کسی پر یقین نہیں کرو گے۔ سکندر خان اسے کُرید رہے تھے۔ وہ دل ہی دل میں مراد کے لیے بہت خوش ہوئے تھے۔ آج اتنے سالوں بعد مراد کے چہرے پر خوشی دیکھی تھی۔ مگر وہ نہیں چاہتے تھے یہ وقتی ابال ہو۔ مراد خان مونا کے کیے کی سزا کسی اور کو دے۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے مراد کے دل میں محبت کی صرف کونپل پھوٹی ہے۔ یا پھر مراد کا دل یقین بھی کرتا ہے کیونکہ جس رشتے میں یقین نہ ہو وہ ریت کے گروندے بنانے کے مترادف ہے۔ مراد خان ہنسا تھا۔سکندر خان کی بات سن کر۔ بابا اسے دیکھ کر تو پوری دنیا پر یقین کرنے کو دل کرتا ہے۔ وہ بنی ہی یقین کرنے کے لیے ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے اس کے حسن کی چند لفظوں میں تعریف کروں تو وہ الفاظ ہیں۔ یقین، وفا، شرم،پاگیزگی، اینجل یہ الفاظ بنے ہی اس کے لیے ہیں۔ مراد خان کی آنکھوں کے پردے پر میرال کا چہرہ لہرایا تھا۔ مراد خان کے عنابی لب بے اختیار مسکرا اٹھے تھے۔ لیکن مراد تم آچھی طرح سوچ لو کیونکہ میں نہیں چاہتا تم ہرٹ ہو اور تمہاری وجہ سے کوئی اور ہرٹ ہو۔ بابا میں جانتا ہوں آپ کیا کہنا چا رہے ہیں۔۔آپ کو کیا لگتا ہے۔میں مونا کے کیے کی سزا کسی اور کو دوں گا۔بابا کمزرف ہوتے ہیں وہ مرد جو کسی کی غلطی کی سزا کسی اور سے لیتے ہیں اور وہ بھی ایک عورت سے انفیکٹ میرے نزدیک وہ مرد ہی نہیں ہوتے۔ یا وہ اپنے پیار پر یقین نہیں کرتے۔ یقین ہی تو پیار کی بنیاد ہے۔ جہاں تک مونا کی بات ہے میں نے مونا کے کیے کی سزا اسے نہیں دی تو کسی اور کو کیا دوں گا۔۔مراد خان سنجیدگی سے بولا تھا۔۔سکندر خان کو اپنے بیٹے پر فخر ہوا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِس میرال آپ ریڈی ہیں۔ مراد خان نے میرال کے کیبن میں آ کر میرال کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جو بلو کلر کے سمپل سے فراک میں ملبوس تھی۔ جس کے گلے پر چھوٹے چھوٹے شیشے لگے ہوئے تھے۔ میک اَپ میں صرف لِپ سٹک لگائی ہوئی تھی۔ جی سر میں ریڈی ہوں۔ میرال اپنی چیئر سے کھڑی ہوتی بولی تھی۔آر یو شیور! آپ ریڈی ہیں؟ مراد خان نے میرال کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے تو یہی لگتا ہے ۔میرال کے چہرے پر غصہ نمودار ہوا تھا مراد خان کے یوں دیکھنے پر۔ مراد خان قہقہہ لگا کر ہنس پڑا تھا۔ میرال کے یوں چڑنے پر۔ مِس میرال،، نو ڈاؤٹ،، آپ بے حد حسین لگ رہی ہیں، بے حد حسین۔ آپ اس حلیے میں بھی پارٹی میں چلی جائیں گی۔ تو یقینًا سب کی نظریں صرف آپ پر ہوں گی۔ مگر یہ ڈریس آپ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ آج بہت حسین لگیں۔ آپ وہ ڈریس پہنیں جو میں آپ کے لیے لایا ہوں۔ لیکن سر میں کس طرح۔۔۔ میرال ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔ پلیز۔۔ مِس میرال میں آپ سے ریکویسٹ کرتا ہوں۔ مراد خان التجائیہ لہجے میں بولا تھا۔ مراد خان نے میرال کو وہ ڈریس تھمایا تھا۔ جو بلیک اور گرے کمبی نیشن میں تھا۔بے حد سٹائلش لانگ میکسی تھی ۔جو بے حد خوبصورت اور ڈیلیکیٹ تھی اس پر لگے بیٹس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ پریٹی!میرال کے منہ سے وہ میکسی دیکھ کر نکلا تھا۔ تو آپ پہنیں گی ناں۔ مراد خان نے بہت آس سے پوچھا۔ میرال نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ مراد خان کا چہرہ خوشی سے چمکا تھا۔ مِس میرال،، یہ میکسی وِد آؤٹ دوپٹہ ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں ارینج کر دیتا ہوں۔ جیسے آپ کو کمفرٹ لگے۔ یہ آپ کی خود کی چوائس ہے۔ مراد خان نے میرال کو میکسی پکڑاتے ہوئے کہا۔ میرال کے ہاتھ کپکپائے تھے ایک پل کے لیے۔ کانوں میں کسی کی آواز گونجی تھی۔ آئیندہ تم مجھے بغیر دوپٹے کے نظر نہ آؤ۔۔ میرال کا چہرہ پل میں دھواں ہوا تھا۔ آنکھوں میں آنسو جھلملائے تھے۔ مراد خان میرال کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔ دوسرے ہی پل میرال میکسی پکڑے تیزی سے ریسٹ روم چلی گئی۔ میرال آئینے کے آگے کھڑی تھی آنسو آنکھوں سے رواں تھے۔ کیوں شامیر میں آج بھی آپ کو بھول نہیں پا رہی۔میرال نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا دوپٹہ سر پر اوڑھا تھا۔ اور خود کو دیکھتے ہوے بے تحاشا رو رہی تھی۔اس نے دوپٹہ سر پر لینا چھوڑ دیا تھا۔کہیں خود کو دیکھ کر شامیر کی یاد نہ آ جاۓ۔مگر کسی کی یاد آنے کے لیے کوئ وجہ نیہں چاہیے ہوتی۔بس وہ تو چپکے سے دل میں چلی آتی ہے۔ میں دعا کرتی ہوں شامیر میرا اور آپ کا سامنا کبھی نہ ہو۔ کیونکہ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں نفرت کرتی ہوں۔ آپ نے ایک پل نہیں لگایا مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ میں آپ کے بغیر کیسے جیوں گی۔ میرال اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرال تیار ہو کر آئی تو مراد خان جیسے سانس لینا بھول گیا تھا۔ میکسی اس کے نازک بدن پر بے انتہا دلکش لگ رہی تھی۔ میرال نے میسی سا سائڈ ڈھیلا جوڑا بنایا ہواتھا۔ آنکھوں پر گرے سموکی میک اَپ کیا تھا۔ میرال اتنی حسین لگ رہی تھی کہ مراد خان کی سانسیں اٹک گئی تھیں۔ لمحوں میں دل بے ایمان ہوا۔ دل پہلو میں سر پٹختے ہوئے اس کو چھونے کو بے قرار ہوا تھا۔ مراد خان سحر زدہ سا ہوتا ہوا دھیرے دھیرے میرال کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ اس سے پہلے مراد خان میرال کے قریب جا کر کوئی گستاخی کرتا۔ موبائل فون کی بیل پر چونکا تھا۔ لمحوں میں وہ جادوئی اثر سے باہر آیا تھا۔ مراد خان جلدی سے آفس سے باہر نکلا تھا۔ اور خود کو ڈپنے لگا۔کہ آج اس سے کچھ ایسا ویسا ہو جاتا تو اسے کتنی شرمندگی ہوتی۔ وہ میرال کو اس کی مرضی کے بغیر چھونا نہیں چاہتا تھا۔ بہت جلد میرال آپ کے تمام حقوق میں اپنے نام لکھوا لوں گا بہت جلد۔ کیونکہ آپ سے دور رہنا اب بہت مشکل ہو گیا ہے۔ مراد خان کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ بکھری تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مراد خان کے ساتھ پارٹی میں پہنچی۔ اس سے پہلے میڈیا ان تک آتا۔ میرال دو قدم پیچھے کو ہوئی تھی۔ مراد خان نے میرال کی ہچکچاہٹ اور گریز محسوس کر لیا تھا۔ مِس میرال آپ اگر کمفرٹیبل نہیں ہیں۔ میڈیا کے سامنے تو آپ ایک طرف بیٹھ سکتی ہیں۔میرال ایک طرف ہو گئی تھی وہ واقعی میں میڈیا کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی۔ مراد خان میڈیا سے جلد ہی ایکسکوز کرتے اس کے پاس آگیا تھا۔ مِس میرال آپ ٹھیک ہیں؟ آپ ایزی ہیں۔ مراد میرال کے پاس آ کر اس سے پوچھنے لگا۔ جو ایک طرف کھڑی تھی۔ جی سر میں بالکل ٹھیک ہوں۔وہ حیرت سے اس انسان کو دیکھ رہی تھی جو دنیا سے الگ تھا۔کتنی عزت تھی اس کی نظروں میں اس کے لئے۔۔کتنی فکر تھی۔ کتنا احترم کرتا تھا اس کی ہر بات کا۔۔اس ایک مہینے میں وہ مراد خان کو اچھی طرح جان چکی تھی۔ وہ تو اسے پہلی نظر میں ہی پہچان چکی تھی۔ ٹھیک کہتے ہیں کسی کو پہچاننے کے لئے ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اور کسی کے ساتھ برسوں رہو اپ اُسے پہچان نہیں سکتے۔۔میرال کی آنکھوں میں کسی کا عکس لہرایا تھا۔۔جسے وہ کبھی سمجھ ہی نہیں سکی۔جس کے بارے میں اُسے گمان تھا وہ اُسے کبھی نیہں چھوڑے گا۔ مر جاۓ گا مگر خود سے دور نیہں کرے گا۔اس نے ایک پل نیہں لگایا تھا اسے خود سے دور کرنے میں۔میرال کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ دوڑ گیئ تھی۔میں بھی کتنی پاگل ہوں شامیر،،مجھے کیوں لگا آپ مجھے کبھی نہیں چھوڑیں گیں۔مجھے تو یہ بھی گمان تھا کہ آپ مجھ پر یقین کریں گیں۔ کیا کیا تھا آپ نے میرے ساتھ ،،میری ذات کے پرخچے اُڑھا دیے۔۔ مجھے حیوانوں کی طرح نوچا تھا۔پھر بھی میں نے آپ کو معاف کر دیا تھا۔ مگر جو آپ نے مجھے دکھ اپنی جدائی کی صورت میں دیا ہے۔میں کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی نہیں۔۔میرال ہمیشہ کی طرح دل ہی دل میں اس بے حس انسان سے مخاطب تھی۔ جس کی یاد آج بھی اس کے جسم میں لہو بن کر دوڑتی تھی۔ مراد خان کے پکارنے پر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔ وہ مراد خان سے باتیں کر رہی تھی جب ایک شور اٹھا تھا۔ میڈیا بھاگتے ہوئے باہر گیا تھا۔ میرال حیران ہوئی شاید کوئی شوبز کا بہت بڑا ستارہ آیا ہے۔ میرال نے سوچا تھا کیونکہ شوبز سے ریلیٹیڈ بہت سے نامور فنکار بھی مدعو تھے اس پارٹی میں۔ میرال نے سامنے دیکھا۔ میرال کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا۔ سانسیں تھم گئی تھیں جیسے۔ وہ اس کے سامنے ہی تو تھا۔ بالکل ویسا جیسے آج سے دو سال پہلے تھا وہی مغروریت جو اس کی پرسنیلٹی کا حصہ تھی ویسے ہی شاندار بارعب پرسنیلٹی۔ وہ اعتماد سے چلتا ہوا سٹیج تک گیا تھا۔ میرال لمحوں میں پیچھے ایک ٹیبل پر چلی گئی تھی۔ میرال کی چال میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی۔ مراد خان حیران ہوا تھا۔ میرال کو کیا ہوا ہے؟ ابھی تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ اس کے ساتھ کھڑی تھی۔ میرال ایک طرف ٹیبل کے گرد بیٹھی اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا تھا۔ شامیر دُرانی کا بہت شاندار استقبال کیا گیا تھا اسے مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ کیونکہ اس فاؤنڈیشن کو چلا ہی وہ رہا تھا۔ شامیر بہت بڑی اماؤنٹ ہر مہینے مختلف فاؤنڈیشنز کو دیتا تھا۔ شامیر سٹیج سے نیچے آیا تو میڈیا پھر سے لپک کر شامیر دُرانی تک پہنچا تھا۔ اور شامیر سے مختلف سوال پوچھنے لگا۔ سر آپ کی کامیابی کا کیا راز ہے؟ سر آپ کا پوری دنیا میں ایک نام ہے آپ کی کامیابی کا سہرا کسے جاتا ہے۔ شامیر میڈیا کے سوالوں پر مسکرایا تھا۔ میری کامیابی کا سہرا میری ناکامی کو جاتا ہے۔ اک ابال تھا اک جنون تھا میرے جسم میں گرم خون تھا سوچا کچھ نہیں بس نکل گیا اپنی آگ میں خود ہی جل گیا ہر طرف یہاں موت ہے رواں زندگی مجھے لائی ہے کہاں دیکھا آئینہ تو میں ڈر گیا جینے کے لیے کتنا مر گیا شامیر نے یہ اشعار پڑھے تھے۔ میڈیا حیران ہوا۔ سر کیا مطلب؟ ایک رپورٹر نے پوچھا۔ میری باتوں پر نہ جایے۔ان کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ شامیر سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے ایکسکیوز کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ شامیر ایک طرف کھڑا ڈرنک کر رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس سے آ کر مل رہے تھے۔ مگر وہ کسی سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کر رہا تھا۔ پارٹی میں آئے لوگ اسے مغرور اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہے تھے۔ شامیر یہ کیا طریقہ ہے۔ یہاں کتنے ہی بڑے بڑے لوگ آئے ہیں وہ تجھ سے خود آ کر مل کر گئے ہیں تو کسی سے بھی سیدھی طرح نہیں مل رہا۔ بے شک تو بہت بڑا بزنس مین ہے۔ مگر اخلاق بھی کوئی چیز ہوتا ہے۔ ماہر شامیر کے پاس آکر سنجیدہ لہجے میں بولا تھا۔ شامیر اس کی بات کا کوئی بھی جواب دیے بغیر بے زاری سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ شامیر کی نظر سامنے پڑی تو دل کی دھڑکن رُک گئی تھی کائنات کی ہر چیز تھم گیئ تھی جیسے۔کچھ پلوں کے لیے سارے منظر دھندلا گیۓ تھے۔دل بے یقین ہوا تھا۔ آنکھوں کے پردوں پر نظر آنا بند ہو گیا تھا۔ شامیر نے اپنی سرخ آنکھیں مسلی تھی۔ دوسرے ہی پل آنکھوں میں وحشت سی اُبھری تھی۔ ہاں وہی تو تھی اس کی میرال، اس کی جان، اس کی زندگی، اس کا سب کچھ۔ بلیک اور گرے کمبی نیشن کی میکسی میں بالوں کا سائیڈ ڈھیلا جوڑا کیے بے حد حسین لگ رہی تھی۔ پہلے سے کہیں زیادہ بے حد حسین اتنی حسین لگ رہی تھی کہ اتنی حسین وہ اس کی ہمراہی میں بھی کبھی اسے اتنی حسین نہیں لگی تھی۔ شامیر نظریں جھپکنا بھول گیا تھا۔ وہ مراد خان کے ساتھ کھڑی مسکراتے ہوئے باتیں کر رہی تھی۔ شامیر کی آنکھیں لہو چھلکانے لگی تھیں۔ شامیر نے ہاتھ میں پکڑے گلاس پر اپنا دباؤ بڑھایا تھا۔ ماہر نے شامیر کی نظروں کا جھکاؤ محسوس کر لیا تھا۔ ماہر کے لب مسکرائے تھے۔ شامیر پہلی دفعہ کسی لڑکی کو یوں آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ ورنہ تو اس کا لڑکیوں میں انٹرسٹ نہ ہوئے کے برابر تھا۔ کتنی ہی لڑکیاں اس کے آگے پیچھ پھرتی تھیں مگر شامیر کسی کو گھاس نہیں ڈالتا تھا۔ آج بھی کتنی ماڈلز شامیر کے آگے پیچھے پھر رہی تھیں مگر شامیر نے کسی کو ایک نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ ماہر نے بھی شامیر کی پسند کو سراہا تھا۔ شامیر جیسے بندے کا ذوق ایسا ہی ہونا چاہیے سب سے جدا سب سے منفرد۔ ماہر کو بھی وہ لڑکی بے حد حسین لگی تھی سب سے جدا۔ خوبصورت ہے ناں۔۔۔شامیر ماہر کی آواز پر چونکا تھا۔ مراد خان کی نیو سیکرٹری ہے۔ کیا قسمت ہے مراد خان کی اتنی حسین سیکرٹری۔ ماہر دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تھا۔ شامیر نے سرد نظروں سے ماہر کو دیکھا تھا۔ اگر تیری بکواس ختم ہو گئی ہے تو،،تُو یہاں سے جا سکتا ہے۔ شامیر تیز آواز میں بولا تھا۔ شامیر اپنا گلاس کا ؤنٹر ٹیبل پر رکھتا بے چینی سے اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھرنے لگا۔ شامیر کے خون میں ابال اٹھنے لگے تھے وہ بغیر دوپٹے کے یوں بنی سنوری کھڑی تھی اور مراد خان اُسے جِن نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ نظریں ایک مرد کو پہچاننے میں دیر نہیں لگتی۔ ان نظروں میں ڈھیروں میٹھے اور نرم گرم جذبات تھے۔ جو شامیر کو آگ لگا گئے تھے۔ شامیر نے زور دار مکا ٹیبل پر مارا تھا۔ شامیر نے دوبارہ سے ا س طرف دیکھا مراد خان اس کی طرف جھکا اس سے کچھ کہہ رہا تھا۔ جس پر وہ مسکرائی تھی۔ شامیر اپنے بالوں میں اظطرابی کیفیت می ہاتھ پھیرنے لگا۔ شامیر اتنا تو میرال کی جدائی میں نہیں سلگا تھا۔ جتنا وہ یہ سوچ کر دن رات سلگتا تھا کہ وہ کسی کی نہ ہو جائے۔ اس کی جدائی اتنا نہیں تڑپاتی تھی جتنا اسے کسی کے ساتھ سوچ کر وہ تڑپ اٹھتا تھا۔ آج وہ بغیر دوپٹے کے اپنا دلنشیں روپ لیے پارٹی میں کھڑی تھی۔ پارٹی میں ہر کسی کی نظریں اسی پر تھیں۔ شامیر کا پورا بدن ایک اَن دیکھی آگ میں جل رہا تھا۔ کاش وہ اس پر حق رکھتا تو وہ کسی کو اس کا ایک بال بھی دیکھنے نہ دیتا۔ شامیر اضطرابی کیفیت میں اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھیرتے میرال کو سلگتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرال مراد خان کو ایکسکیوز کرتی اپنا فون سننے کے لیے باہر آئی ہی تھی کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا پارکنگ ایریا میں لایا تھا۔ اور اسے جھٹکےسے ایک گاڑی کے بونٹ پر پٹخا تھا۔ میرال کراہتی ہوئی پلٹ کر دیکھا تو اپنے سامنے شامیر دُرانی کو دیکھ کر زمین و آسمان اسے گھومتے ہوئے محسوس ہوئے۔ شامیر دُرانی۔ میرال لڑکھڑائی آواز میں بولی۔ شامیر نے سرخ اور سرد آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔ میرال کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔ ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئی تھیں شامیر نے اس کی کلائی پکڑ کر اس اپنے سامنے کھڑا کیا۔ میرال نے غصے سے اپنی کلائی چھڑوانی چاہی مگر اس کی گرفت کافی مضبوط تھی۔ چھوڑو مجھے۔ میرال شامیر سے نظریں چراتے ہوئے بولی۔ آج بھی اس کی آنکھوں میں دیکھنا میرال کو مشکل ترین لگا تھا۔ نیکسٹ ایپیسوڈ چاہیے تو زیادہ سے زیادہ لائکس دیں اور کمنٹس میں بتائیں ایپیسوڈ کیسی لگی۔نیو ٹوسٹ کیسا لگا۔۔۔۔۔❤❤❤❤ |
|
| |
| |
| | |
| Was this email:Useful | Not Useful | |
| |
| | This message was sent to lutran@maxseeding.com. If you don't want to receive these emails from Meta in the future, please unsubscribe. Meta Platforms, Inc., Attention: Community Support, 1 Meta Way, Menlo Park, CA 94025 |
| |
| To help keep your account secure, please don't forward this email. Learn more |
| |
|